فتویٰ نمبر:3022
سوال: السلام علیکم! محترم مفتی صاحب! مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ ہم بنک کے جو ATM کارڈز بنواتے ہیں، اس کی بنا پر ہمیں بہت ساری شاپس یا ہوٹلز میں %10 یا%20 ڈسکاؤنٹ ملتا ہے ۔ کیا ان آفرز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا اسلامک بنکنگ کرنے والوں کے لیے یہ گنجائش ہے؟ جزاک اللہ!
والسلام
الجواب حامداو مصليا
وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ!
ڈیبٹ کارڈ یا ATM کارڈ استعمال کرنا اور اس کارڈ کے ذریعہ خریداری کرنا فی نفسہ جائز ہے۔
لیکن اس سے خریدار کو کارڈ جاری کرنے والے ادارے کی طرف سے جو ڈسکاؤنٹ دی جاتی ہے اس میں شرعا کچھ تفصیل ہے:
وہ ڈسکاؤنٹ اگر دکاندار کی طرف سے ہو یعنی کارڈ جاری کرنے والا بنک اس کی ادائیگی نہ کرتا ہو تو یہ ڈسکاؤنٹ فی نفسہ جائز ہے۔لیکن کبھی یہ رعایت یا ڈسکاؤنٹ دکاندار اور کارڈ جاری کرنے والا ادارہ مل کر مشترکہ طور پر ادا کرتے ہیں تو یہ رعایت حاصل کرنا بھی جائز ہے؛اس لیے کہ کسی چیز کی خریداری پر بائع سے اس چیز کی قیمت میں رعایت حاصل کرنا شرعا جائز ہے۔
لیکن مذکور کارڈ سے خریدار پر کارڈجاری کرنے والے ادارے کی طرف سے جورعایت دے جائے اس میں بھی شرعا کچھ تفصیل ہے:
اگر کارڈ جاری کرنے والا ادارہ کوئی سودی بنک ہو تو ڈیبٹ کارڈ ہولڈر کو سودی بنک جو کارڈ جاری کرتا ہے وہ اس کو اس کی اسی رقم کی بنیاد پر جاری کرتا ہے جو اس نے بنک میں رکھوائی ہے اور سودی بنک میں رکھوائی ہوئی رقم شرعا قرض ہے،اس لیے سودی بنک سے مذکورہ رعایت قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے ناجائز اور سود کے حکم میں ہے۔
اگر مذکور کارڈ غیر سودی بنک کا جاری کردہ ہو تو اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ اگر غیر سودی بنک کا جاری کردہ ڈیبٹ کارڈ ،کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقم کی بنیاد پر ہے تو اس صورت میں بھی مذکور کارڈ سے خریداری پر ڈسکاؤنٹ قرض کی بنیاد پر نفع شمار ہو گا جو کہ جائز نہیں؛ کیونکہ غیر سودی بنک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقم بھی شرعا بنک پر قرض ہے۔
لیکن اگر ڈیبٹ کارڈ کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوائی ہوئی رقم کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ مشارکہ مضاربہ وغیرہ پر لگائی گئی رقم کی بنیاد پر ہو یا یہ رعایت بنک اکاؤنٹ ہولڈر ہونے کی بنیاد پر اپنے تمام اکاؤنٹ ہولڈرز(کرنٹ اکاؤنٹ،سیونگ اکاؤنٹ،بچت اکاؤنٹ وغیرہ)کو فراہم کرتا ہے تو اس صورت میں اگر غیر سودی بنک یہ رعایت فراہم کرتا ہو تو وہ شرعا نفع شمار ہوگا یا بنک کی طرف سے اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے لیے ایک تبرع شمار ہوگا جو جائز ہے۔
”قال ویجوز للمشتری ان یزید للبائع فی الثمن ویجوز للبائع ان یزید للمشتری فی المبیع ویجوز ان یحط من الثمن ویتعلق الاستحقاق بجمیع ذلک فالزیادہ والحط یلتحقان باصل العقد عندنا“(فی الھدایہ شرح البدایہ:٦٠/٣)
نیز دیکھیے دارالعلوم کراچی سے جاری شدہ فتوی نمبر 57/1902
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:٢٣ربیع الثانی ١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ:31دسمبر 2018ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: