ایسی احادیث کو معلل (defective) کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم معلل حدیث کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ جانیں کہ پوشیدہ خرابی کس نوعیت کی ہو سکتی ہے ، بہتر ہو گا کہ ہم مضطرب (shaky) اور مقلوب (reversed) احادیث کو پہلے دیکھ لیں کیونکہ ان سے ہمیں معلل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
1 ۔مضطرب (shaky)
حافظ ابن کثیر کے مطابق اگر کسی روایت کے راویان اس روایت کو بیان کرنے والے شیخ کے بارے میں متفق نہ ہوں یا متن اور اسناد میں کسی نکتے پر ان کا اتفاق نہ ہو اور اختلاف بھی ایسا ہو کہ ایک کی رائے کو دوسرے کی رائے پر ترجیح نہ دی جا سکتی ہو جس کی وجہ سے روایت کے متن یا اسناد میں بے یقینی کی سی کیفیت پیدا ہو جائے تو ایس روایت کو مضطرب کے درجے میں رکھیں گے۔
اسناد میں اضطراب کی مثال ابو بکر ؓ سے بیان کی گئی ایک روایت ہو سکتی ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کو بوڑھا ہوتا دیکھ رہا ہوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے سورہ ھود اور اس کے ساتھ کی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔
الدارالقطنی کہتے ہیں یہ ایک مضطرب حدیث کی مثال ہے۔ یہ ابو اسحاق نے بیان کی ہے مگر اسکی اسناد کے بارے میں کوئی دس کے قریب مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ کوئی اسکو مرسل کہتا ہے تو کوئی متصل۔ کوئی اسے ابو بکر ؓ کی مسند کہتا ہے تو کوئی حضرت سعدؓ یا عائشہ ؓ کی مسند۔ چونکہ یہ سارے رائے دہندگان وزن میں ایک برابر ہیں اس لیے کسی ایک کی رائے کو دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہے۔ اس لیے اس حدیث کو مضطرب کے درجے میں رکھا گیا ہے۔
2۔ مقلوب (reversed, changed)
مقلوب اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی روایت کی سند کسی دوسری روایت کے متن میں پیوند کر دی جائے یا کسی روایت کا متن کسی دوسری روایت کی سند سے جوڑ دیا جائے۔ یا کوئی راوی روایت کو بیان کرتے وقت متن کا کوئی جملہ الٹی ترتیب سے بول دے۔
اسکی مثال ایک مشہور حدیث میں دی جا سکتی ہے جس میں ان سات لوگوں کا ذکر ہے جن کو قیامت کے دن اللہ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیں گے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ان سات لوگوں میں سے ایک وہ ہو گا جو اس طرح صدقہ دیتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ بائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے۔ یہاں پر اس جملے میں دائیں اور بائیں ہاتھ کی ترتیب کو واضح طور پر کسی راوی نے بدل دیا ہے۔ کیونکہ درست جملہ بخاری اور مسلم کی ہی دوسری روایات میں موجود ہے۔ جہاں لکھا ہے کہ وہ اسطرح صدقہ دیتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے۔
بغداد کے علماء نے امام بخاری کو آزمانے کی خاطر دس بندے نامزد کیئے اور ہر ایک کو دس احادیث دے دی گئیں۔ ان کے پاس جو بھی احادیث تھیں ان میں ہر ایک کے متن کے ساتھ کسی دوسری حدیث کی اسناد لگا دی گئی تھی۔ یعنی ان احادیث کو مقلوب بنا کر پیش کیا گیا۔ امام بخاری نے ان سب کو غور سے سنا اور سب کی روایات مسترد کر دیں۔ جب وہ سب اپنی اپنی احادیث سنا چکے تو انہوں نے باری باری ان تمام بندوں کو مخاطب کیا اور انہیں ان کی بیان کردہ احادیث درست سند کے ساتھ بیان کر دیں۔ اس واقعے سے علمائے بغداد میں امام بخاری کی شہرت میں زبردست اضافہ ہوا۔
کسی راوی کی طرف سے حدیث کی سند میں کسی کا نام بدل دینا یا ناموں کی ترتیب بدل دینا بھی حدیث کو مقلوب بنا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث کو نبی ﷺ سے ابو ہریرہ ؓ کے ذریعے روایت کیا جائے لیکن اصل میں وہ کسی اور نے نبی ﷺ سے روایت کی ہو۔ یا ولید سے مسلم نے سنا کہا جائے لیکن اصل میں مسلم نے ولید سے سنا ہو وغیرہ وغیرہ
3۔ معلل (defective)معلل ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند یا متن میں کوئی ایسی خرابی ہو جو پوشیدہ ہو اور اسکے ظاہر ہو جانے سے حدیث کی صحت پر فرق پڑتا ہو۔ اگر دونوں باتیں ہوں تو ہی اس حدیث کو معلل کہیں گے۔ ورنہ اگر اسناد یا متن میں کوئی غیر پوشیدہ خرابی ہو تو وہ حدیث پہلے بیان کیے گئے درجات میں سے کسی میں ڈالی جائے گی۔
حدیث میں پوشیدہ علتیں مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں:
ا۔ کسی حدیث کو مرفوع قرار دینا جبکہ اصل میں وہ موقوف ہو۔ یا اسے مسند قرار دینا جبکہ اصل میں وہ مرسل ہو۔
ب۔ ایک راوی اپنے استاذ سے کوئی حدیث بیان کر رہا ہو لیکن وہ ان شیخ سے کبھی ملا ہی نہ ہو۔ یا وہ کسی ایک صحابی سے حدیث بیان کر رہا ہو لیکن اصل میں وہ حدیث کسی دوسرے صحابی کی طرف سے بیان کردہ ہو۔
علل کا علم ، مصطلح الحدیث (علم الحدیث) کی سب سے مشکل ترین شاخ ہے۔ اور اس کا درجہ دوسرے علوم سے بلند ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ذریعے احادیث میں پوشیدہ خامیاں تلاش کی جاتی ہیں۔ اس علم کے ماہرین کے لیے اعلی درجے کا حافظہ ، معلومات اور وسعت نظر چاہیے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس میدان میں سوائے چند قلیل ماہرین جیسے ابن مدینی (234ھ) ، ابن ابی حاتم الرازی (327ھ) ، الخلل (311ھ) ، الداراقطنی (385ھ) نے ہی اس پر کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں تقریباً 2،840 معلل احادیث بیان کی ہیں۔