عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف :دوسری قسط
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور ہجرتِ مدینہ
نبوت کے تیرہویں سال کے آخری ایام میں جب ہجرت کاحکم نازل ہواتومسلمان بڑی تعدادمیں مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرگئے، جس کانتیجہ یہ ہواکہ رفتہ رفتہ مکہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا،اب محض وہ لوگ ہی مکہ میں رہ گئے تھے جوکسی کی قیدمیں تھے ، یاجوغلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ البتہ تین افرادایسے تھے کہ جونہ تومحبوس تھے اورنہ ہی مجبور…لیکن اس کے باوجودوہ تاہنوزمکہ میں ہی مقیم تھے،یعنی خودرسول اللہﷺ، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،نیزحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، اوراس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہﷺ تواب تک اپنے اللہ کی طرف سے ’’اجازت‘‘کے منتظرتھے،جبکہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کواب تک آپ ﷺنے خودروک رکھا تھا۔
البتہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اس دوران متعددبارآپ ﷺسے ’’ہجرت‘‘کی اجازت طلب کرچکے تھے، لیکن ہربارآپ ﷺ انہیں یہی جواب دیتے کہ : لَا تَعْجَل یَا أبَا بَکر! لَعَلَّ اللّہَ یَجْعَلُ لَکَ صَاحِباً ’’اے ابوبکر! جلدی نہ کرو، شایداللہ تمہارے لئے کسی ہمسفرکاانتظام فرمادے۔ اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی کہ شایدوہ ’’ہمسفر‘‘خودرسول اللہﷺ ہی ہوں…
ایک دن نبی کریم ﷺخلافِ معمول تپتی ہوئی دوپہرمیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھرتشریف لائے اورانہیں مطلع فرمایا کہ آج سفرِہجرت پرروانگی ہوگی… تب حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: الصُحْبَۃ یا رسُولَ اللّہ؟ ’’اے اللہ کے رسول! اس سفرمیں کیامیں آپ کے ہمراہ چلوں؟‘‘ آپﷺنے جواب میں ارشادفرمایا: نَعَم ، الصُحْبَۃ یا أبَا بَکر۔’’ہاں اے ابوبکر!اس سفرمیں تم میرے ’’ہمسفر‘‘ ہوگے‘‘۔ اورتب فرطِ مسرت کی وجہ سے ابوبکرؓ اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکے… ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ،اورابوبکرؓکی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااُس وقت یہ تمام منظردیکھ رہی تھیں،وہ فرماتی ہیں کہ اُس دن جب میں نے اپنے والد (ابوبکرؓ) کوفرطِ مسرت سے روتے ہوئے دیکھا… تواُس وقت زندگی میں پہلی بارمجھ پریہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انسان جس طرح بہت زیادہ غم اورصدمے کے وقت روتاہے ، اسی طرح بہت زیادہ خوشی کے وقت بھی روتاہے، انسان کی آنکھوں سے بہنے والے یہ آنسوکبھی ’’غم کے آنسو‘‘ ہواکرتے ہیں، اورکبھی ’’خوشی کے آنسو‘‘،اس سے قبل مجھے اس بات کاعلم نہیں تھا‘‘۔
پھرآپﷺ اپنے ’’رفیقِ سفر‘‘کوچندضروری ہدایات دینے کے بعد اپنے گھرواپس تشریف لے آئے۔جب رات ہوئی ، ہرطرف اندھیراچھاگیا،تب رؤسائے قریش کی طرف سے مقررکردہ مسلح نوجوانوں کاایک چاق وچوبنددستہ وہاں آپہنچا،اورآتے ہی انہوں نے رسول اللہ ﷺکے گھرکامحاصرہ کرلیا،تاکہ آپ ﷺ حسبِ معمول جب رات کے آخری پہرعبادت کی غرض سے بیت اللہ کی جانب روانگی کیلئے گھرسے نکلیں گے تب یہ سب یکبارگی آپ ﷺ پرٹوٹ پڑیں گے۔
اُس رات رسول اللہﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ’’ اے علی! آج رات تم میرے بسترپرسوجاؤ اورمیری چادراوڑھ لو‘‘رات کے آخری پہررسول اللہﷺ قرآن کریم کی آیت : {وَجَعَلْنَا مِن بَینِ أیْدِیْھِم سَدّاً وَّ مِن خَلْفِھِم سَدّاً فَأغشَینَاھُم فَھُم لَا یُبْصِرُونَ} (یٰس 9) پڑھتے ہوئے اپنے گھرسے باہرتشریف لائے ، اپنی مٹھی میں کچھ خاک لی ، اورپھونک مارکراسے ان مسلح نوجوانوں کی جانب اُڑادیا،اورنہایت اطمینان کے ساتھ ان کی نگاہوں کے سامنے سے گذرگئے… لیکن نہ توانہیں کچھ نظرآیا،اورنہ ہی انہیں کچھ علم ہوسکا، اوروہ رات بھراس اطمینان کے ساتھ وہاں پہرہ دیتے رہے کہ آپ ﷺ اندراپنے گھرمیں موجود ہیں۔
رسول اللہﷺ اس شخص کے گھرپہنچے کہ جس پراُس وقت آپﷺ کوسب سے زیادہ بھروسہ تھا،یعنی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، اورپھرفوراًہی وہ دونوں رات کی تاریکی میں گھرکے عقبی دروازے سے نکل کرایک نئی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔
مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب واقع ہے،لیکن یہ دونوں حضرات بالکل مخالف سمت میں یعنی جنوب(ملکِ یمن) کی طرف چل دئیے،رات کے اندھیرے میں دشوارگذار پہاڑی راستوں پرکہ جہاں ہرطرف نوکیلے سنگ ریزوں کی بھرمارتھی، دونوںمسلسل پاپیادہ چلتے رہے، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کبھی رسولﷺ کے آگے چلتے، کبھی پیچھے، کبھی دائیں، اورکبھی بائیں، یوں وہ بارباراپنی جگہ تبدیل کرتے، گویابڑی بے چینی میں مبتلاہوں ،آپ ﷺنے ان کی یہ کیفیت دیکھی تودریافت فرمایاکہ اے ابوبکر!کیابات ہے؟ اس پرابوبکرؓنے جواب دیا: ’’اے اللہ کے رسول! مجھے کبھی یہ اندیشہ ہونے لگتاہے کہ ایسانہ ہوکہ کوئی دشمن سامنے کہیں چھپا بیٹھا ہو اوروہ اچانک سامنے سے ظاہرہوکرآپ کوکوئی نقصان پہنچائے،اس لئے میں آپ کے آگے آگے چلنےلگتاہوں،اورپھریہ اندیشہ ہونے لگتاہے کہ ایسانہ ہو کوئی تعاقب کرنے والا کہیں پیچھے سے اچانک آجائے ،یہ سوچ کرمیں آپ کے پیچھے آجاتاہوں،پھریہ فکرستانے لگتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ دائیں یابائیں کوئی دشمن گھات لگائے بیٹھاہو،اس لئے میں کبھی آپ کے دائیں چلنے لگتاہوں اورکبھی آپ کےبائیں۔
اسی کیفیت میں یہ دونوں حضرات مسلسل چلتے رہے… یہاں تک کہ تقریباً پانچ میل(یعنی تقریباًآٹھ کلومیٹر) کی مسافت پیدل طے کرنے کے بعدایک انتہائی بلندوبالاپہاڑکے دامن میں پہنچے ،اورانتہائی کٹھن اورمشکل ترین راستہ طے کرتے ہوئے اس کی چوٹی پرواقع ایک غارکے سامنے جاپہنچے جوکہ ’’غارِثور‘‘کے نام سے معروف ہے۔
اس غارکے دہانے پرپہنچنے کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ یارسول اللہ ! آپ یہیں توقف فرمائیے، پہلے میں اکیلااندرجاکرغارکاجائزہ لے لوں ، ایسانہ ہوکہ پہلے سے ہی وہاں کوئی دشمن چھپابیٹھاہو،چنانچہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ تنہااندرگئے،اچھی طرح جائزہ لیا، اورکچھ صفائی وغیرہ بھی کی ، اِدھراُدھرچندچھوٹے بڑے سوراخ نظرآئے ، حضرت ابوبکرؓکویہ اندیشہ لاحق ہواکہ کہیں ان سوراخوں میں کوئی موذی جانورنہ ہو، جورسول اللہﷺکیلئے تکلیف واذیت کاباعث بن جائے ،یہ سوچ کر انہوں نے اپنے لباس سے کچھ کپڑاپھاڑکراس کے ذریعے ان سوراخوں کوبندکردیا، اور پھرباہرآکررسول اللہﷺ کی خدمت میں گذارش کی کہ’’ یارسول اللہ!اب آپ اندر تشریف لے آئیے‘‘آپﷺ غارکے اندرتشریف لے آئے،اوراس کے بعدیہ دونوں حضرات اس غارمیں تین دن مقیم رہے۔
اُدھرمکہ شہرسے ان دونوں حضرات کی خفیہ روانگی کے بعد نہایت زوروشورکے ساتھ تعاقب اورتلاش کاسلسلہ شروع ہوگیا ،ہرکوئی نہایت سرگرمی کے ساتھ اسی کام میں سرگرداں ہوگیا،حتی کہ لوگ تعاقب کرتے کرتے اُس غارکے دہانے پرجاپہنچے جس میں وہ دونوں حضرات پناہ لئے ہوئے تھے، حتیٰ کہ ان کی آوازیں اوران کی باہمی گفتگوغارکے اندرسنائی دینے لگی۔اس قدرنازک ترین صورتِ حال کی وجہ سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے،اورعرض کیاکہ ’’اے اللہ کے رسول! مجھے اپنی کوئی فکرنہیں ہے، البتہ مجھے یہ غم کھائے جارہاہے کہ کہیں آپ کوکوئی تکلیف نہ پہنچے، کیونکہ اگرآپ کوکچھ ہوگیاتو امت کاکیا بنے گا؟‘‘ آپﷺ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ارشادفرمایا: مَا ظَنُّکَ یَا أبَا بَکْر بِاثْنَیْن ، اَللّہُ ثَالِثُھُمَا؟اے ابوبکر!ایسے دوانسان جن کے ساتھ تیسراخوداللہ ہو ان کے بارے میں تمہاراکیاگمان ہے؟‘‘ مقصدیہ کہ ہم محض دونہیں ہیں، بلکہ ہمارے ساتھ اللہ کی معیت ونصرت بھی شاملِ حال ہے، لہٰذافکرکی کوئی بات نہیں۔
اسی واقعے کی طرف قرآن کریم میں اس طرح اشارہ کیاگیاہے: {اِلّا تَنصُرُوہُ فَقَد نَصَرَہُ اللّہُ اِذ أخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَینِ اِذ ھُمَا فِي الغَارِ اِذ یَقُولُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَن اِنَّ اللّہَ مَعَنَا}(التوبہ 40) (اگرتم ان(نبی ﷺ) کی مددنہیں کروگے ٗ تواللہ نے ہی ان کی مددکی اُس وقت جبکہ انہیں کافروں نے نکال دیاتھا،اور دومیں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غارمیں تھے ، جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ دونوں تین دن تین رات مسلسل اس غارمیں مقیم رہے، اس کے بعدوہاں سے آگے منزلِ مقصودیعنی مدینہ کی جانب روانگی ہوئی ،طویل سفر کے بعدآخریہ دونوں حضرات نبوت کے چودہویں سال، بتاریخ ۸/ربیع الاول ،بروزپیر،مدینہ کے مضافات میں پہنچ گئے۔
اس یادگاراوراہم ترین سفرکے موقع پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جس طرح رسول اللہ ﷺ کی خدمت وپاسبانی کافریضہ سرانجام دیا…یقیناوہ تاریخِ اسلام کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)