عقیقے کے جانور سے متعلق چند مسائل

سوال:السلام عليكم!

عقیقہ کے حوالے سے چند مسائل معلوم کرنے تھے:

1۔ یہ کہ لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے ایک ساتھ ہی ذبح کرنا ضروری ہیں یا کچھ دن کے وقفے سے بھی کر سکتے ہیں؟

2۔ اس کی کھال کا کیا کرنا چاہیے کسی غریب کو صدقہ، یا مدرسے میں یا کچھ اور بھی کر سکتے ہیں؟

3۔ عقیقے کا بکرا بھی سال کا ہو یعنی دو دانت کا ہونا چاہیے، یا 1 سال سے کم عمر کا بھی کر سکتے ہیں؟

4۔ اس کی سری، پائے اور گوشت قصائی کو اجرت کے علاوہ دے سکتے ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته!

1۔ واضح رہے لڑکے کے عقیقے میں ساتویں دن دو بکرے ذبح کرنا مستحب ہے، اگر کسی مجبوری کی وجہ سے عقیقے کے دو بکروں کو الگ الگ اوقات میں ذبح کیا جائے، تو اس کی گنجائش ہے، البتہ یہ مستحب طریقہ نہیں ہے۔

2۔ عقیقے کے جانور کی کھال کو صدقہ بھی کیا جاسکتا ہے اور خود بھی استعمال کیا جاسکتا ہے؛ البتہ اس کو فروخت نہیں کیا جاسکتا، اگر کھال فروخت کردی تو اس کی رقم اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا، بلکہ اس کو فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے، نیز کھال یا کھال کی رقم قصائی یا مزدور کو مزدوری میں دینا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔ عقیقے کے بکرا، بکری کی عمر ایک سال ہونا ضروری ہے، اگر عمر ایک سال سے کم عمر ہوگی تو عقیقہ درست نہیں ہوگا۔

4۔ عقیقے کے جانور کے سری، پائے اور گوشت قصائی کو اجرت کے علاوہ دیے جاسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ “يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا”.

(فتاوی شامیة، كتاب الأضحية:6/ 336)

2۔ “(ويتصدق بجلدها أو يعمل منه نحو غربال وجراب ) وقربة وسفرة ودلو ( أو يبدله بما ينتفع به باقيا ) كما مر ( لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه ) كدراهم ( فإن بيع اللحم أو الجلد به ) أي بمستهلك ( أو بدراهم تصدق بثمنه ) ومفاده صحة البيع مع الكراهة وعن الثاني باطل لأنه كالوقف ، مجتبى ( ولا يعطى أجر الجزار منها ) لأنه كبيع، واستفيدت من قوله عليه الصلاة والسلام من باع جلد أضحيته فلا أضحية له هداية”.

(الدر المختار، کتاب الأضحیة: 6/ 328)

3۔ “ثم یعق عند الحلق عقیقة … وهي شاة تصلح للأضحیة”.

(الدر المختار مع شرحه رد المحتار، 4/334)

4۔ “وفیه دلیل لقول الجمهور: لایجزئ فی العقیقة إلا ما یجزئ فی الأضحیة فلا یجزئ فیه ما دون الجزعة من الضأن و دون الثنیة من المعز ولا یجزئ فیه إلا السلیم من العیوب لأنه ﷺ سماہ نسکا فلا یجزئ فیه إلا ما یجزئ فی النسك”.

(اعلاء السنن، باب أفضلیة ذبح الشاۃ فی العقیقة: 17/130)

5۔ “یھب منها (ای من الاضحیة) ما شاء للغنی والفقیر والمسلم والذمی.

وفیھا أیضًا: ولا أن یعطی (أی لایجوز) اجر الجزار والذبح منھا”.

(فتاوی ھندیة: 301/5)

6۔ کفایت المفتی میں ہے:

“لڑکے کی ولادت پر اگر استطاعت ہو تو (ہر ایک لڑکے کی طرف سے) دو بکرے یا بکریاں ذبح کرنا مستحب ہے۔ اور اگر دو کی وسعت نہ ہو تو ایک کا ذبح کرنا بھی کافی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں بہتر تو یہ تھا کہ مذکورہ شخص دونوں بکرے ایک ساتھ ساتویں یا چودہویں دن ذبح کردیتا تاہم جب اس نے ایک بکرا ذبح کیا تو بھی عقیقہ ہوگیا، اب دوسرا کرنا چاہیں تو یہ دوسرا بھی ذبح کرلیں”۔

(کفایت المفتی: 8/242)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

22 رجب1443ھ

24فروری2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں