مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید کے شوق نے ہمارے معاشرے میں جن رسموں کو رواج دیا ہے انہی میں سے ایک رسم ’’اپریل فول ‘‘ منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کو جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دینا، اور دھوکہ دے کر کسی بے وقوف بنانا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے، بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے، جو شخص جتنی صفائی اور چابک دستی سے دوسرے کو جتنا بڑا دھوکہ دے، اتنا ہی اسے قابل تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔
یہ مذاق جسے در حقیقت ’’بدمذاقی‘‘ کہنا چاہیے، نہ جانے کتنے افراد کو بلا وجہ جانی اور مالی نقصان پہنچا چکا ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں کہ انہیں کسی ایسے صدمے کی جھوٹی خبر سنا دی گئی جسے سننے کی وہ تاب نہ لا سکے اور زندگی ہی سے ہا تھ دھو بیٹھے۔
یہ رسم جس کی بنیاد جھوٹ، دھوکے اور کسی کو بلاوجہ بے وقوف بنانے کی ہے، اخلاقی اعتبار تو بری ہے ہی لیکن اس کا تاریخی پہلو بھی ان لوگوں کے لیے انتہائی شرمناک ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تقدس پر کسی بھی اعتبار سے ایمان رکھتے ہیں۔
اپریل فول منانے کا تاریخی پس منظر کیاہے؟ اس کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں۔ ایک وجہ بعض مورخین نے یہ لکھی ہے کہ اپریل دراصل یونانی، زبان کے ایک لفظ ’’وینس‘‘ کا ترجمہ ہے اور وینس رومی لوگوں کی ایک دیوی کا نام ہے۔ یہ لوگ یکم اپریل کو اس دیوی کی نسبت سے جشن مناتے تھے اور اس جشن کا ایک حصہ ہنسی مذاق تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے ’’اپریل فول‘‘ بن گیا۔
برٹانیکا میں اس رسم کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ۲۱ مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اﷲ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے، لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا (برٹانیکا ص ۵۹۶ ج ا) یہ بات اب بھی مبہم ہی ہے کہ قدرت کے اس نام نہاد ’’مذاق ‘‘ کے نتیجے میں یہ رسم چلانے سے ’’قدرت‘‘ کی پیروی مقصود تھی یا اس سے انتقام لینا منظور تھا۔
ایک وجہ انیسویں صدی عیسوی کی معروف انسائیکلو پیڈیا لاروس نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ نام نہاد انجیلوں میں اس واقعے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ لوقا کی انجیل کے الفاظ یہ ہیں۔
’’اور جو آدمی اسے (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو) گرفتار کیے ہوئے تھے، اس کو ٹھٹھے میں اڑاتے اور مارتے تھے اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس کے منہ پر طمانچے مارتے تھے اور اس سے یہ کہہ کر پوچھتے تھے کہ نبوت (یعنی الہام) سے بتا کہ کس نے تجھ کو مارا؟ اور طعنے مار مار کر بہت سی اور باتیں اس کے خلاف کہیں۔‘‘
(انجیل لوقا ۲۲- ۶۳ تا ۶۵)
انجیلوں میں ہی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودی سرداروں اور فقیہوں کی عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا ہے پھر وہ انہیں پیلاطیس کی عدالت میں لے گئے کہ ان کا فیصلہ وہاں ہوگا، پھر پیلاطیس نے انہیں ہیرو ڈیس کی عدالت میں بھیج دیا اور بالآخر ہیروڈیس نے دوبارہ فیصلے کے لیے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیجا۔
لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا اور چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لیے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یادگار ہے۔
اگر یہ بات درست ہے (اور لاروس وغیرہ نے اسے بڑے وثوق کے ساتھ درست قرار دیا ہے اور اس کے شواہد پیش کیے ہیں) تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی اور اس کا منشاء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تضحیک ہوگی۔ لیکن یہ بات حیرت ناک ہے کہ جو رسم یہودیوں نے (معاذ اﷲ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہنسی اڑانے کے لیے جاری کی اسے عیسائیوں نے کس طرح ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف قبول کر لیا بلکہ خود بھی اسے منانے اور رواج دینے میں شریک ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عیسائی صاحبان اس رسم کی اصلیت سے واقف ہی نہ ہوں اور انہوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عیسائیوں کا مزاج و مذاق ہی اس معاملے میں عجیب و غریب ہے۔ جس صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے خیال میں سولی دی گئی بظاہر قاعدے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ان کی نگاہ میں قابل نفرت ہوتی کہ اس کے ذریعے حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسی اذیت دی گئی لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عیسائی حضرات نے اسے مقدس قرار دینا شروع کردیا اور آج وہ عیسائی مذہب میں تقدس کی سب سے بڑی علامت سمجھی جاتی ہے۔
لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ عیسائی حضرات نے مسیح علیہ السلام کے نشانہ تمسخر بننے کی اس یادگار کو بھی برا نہ سمجھا ہو اور یہ جاننے کے باوجود کہ اپریل فول کس واقعہ کی یادگار ہے انہوں نے اپنے معاشرے میں بھی اس رسم کو جاری رکھا ہو۔ واﷲ علم بالصواب
لیکن مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ خواہ اپریل فول کی رسم وینس نامی دیوی کی طرف منسوب ہو یا اسے (معاذ اﷲ) قدرت کے مذاق‘‘ کا ردعمل کہا جائے یا حضرت مسیح علیہ السلام کے مذاق اڑانے کی یادگار، ہر صورت میں اس رسم کا رشتہ کسی توہم پرستی ، کسی گستاخانہ نظریئے یا واقعے سے جڑا ہوا ہے اور مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے یہ رسم مندرجہ ذیل بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔
۱۔ جھوٹ بولنا
۲۔ دھوکہ دینا
۳۔ دوسرے کو اذیت پہنچانا
۴۔ ایک ایسے واقعے کی یاد منانا جس کی اصل بت پرستی ہے، یا توہم پرستی، یا پھر ایک پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق۔ اب مسلمانوں کو خود فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیا یہ رسم اس لائق ہے کہ اسے مسلمان معاشروں میں اپنا کر اسے فروغ دیا جائے؟
اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے ماحول میں اپریل فول منانے کا رواج بہت زیادہ نہیں ہے لیکن اب بھی ہر سال کچھ نہ کچھ خبریں سننے میں آہی جاتی ہیں کہ بعض لوگوں نے اپریل فول منایا۔ جو لوگ بے سوچے سمجھے اس رسم میں شریک ہوتے ہیں وہ اگر سنجیدگی سے اس رسم کی حقیقت و اصلیت اور اس کے نتائج پر غور کریں گے تو انشاء اﷲ وہ اس سے پرہیز کی اہمیت تک ضرور پہنچ کر رہیں گے۔
Load/Hide Comments