یاسر ندیم الواجدی
دوسری صدی کے امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کی صحیح کو اس دور میں پندرہویں صدی کے امیر المومنین فی الحدیث شیخ یونس جونپوری رحمہ اللہ سے زیادہ جاننے والا شاید ہی کوئی ہو۔ نابغہ روزگار شخصیات کی مقبولیت کا اصل اندازہ ان کے جنازوں سے ہوتا ہے۔ امام احمد بن حنبل (جن کی مسند کو حضرت شیخ نے ایک لفظ کی تلاش میں چار بار پڑھا تھا) نے کہا تھا کہ ہمارے اور ان کے درمیاں جنازے فیصلہ کریں گے۔ آج جب شیخ کا جنازہ اٹھا تو دنیا نے دیکھا کہ اہل علم کی قدر کسے کہتے ہیں۔ دلوں کے یہ بادشاہ اپنی وفات کے بعد بھی عظمت کی اونچائیوں پر فائز رہتے ہیں۔ دربار ان کے بھی سجتے ہیں لیکن امراء ووزراء کے لیے نہیں بلکہ ان کے دربار میں وہ بوریہ نشین شہزادے حاضر باش رہتے ہیں جن کے سامنے نبی کی میراث سے اپنی زندگی کو منور کرلینا ہی مقصد ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ سادگی سے مرصع دربار میں مسند نشین شیخ کے ارد گرد گھنٹوں بیٹھےاس میراث پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔
حضرت شیخ جب سہارنپور پڑھنے کے لیے آئے تو بہت بیمار ہوگئے۔ اساتذہ نے مشورہ دیا کہ واپس اپنے گھر چلے جائیں۔ حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا، مگر وہ نہ مانے۔ حضرت شیخ زکریا نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ “پھر پڑا رہ یہیں”۔ شاگرد نے اس جملے پر ایسا عمل کیا کہ اپنے شیخ کے در پر زندگی گزاردی تا آنکہ بڑھاپے میں جنازہ ہی اٹھا۔ یہی وجہ تھی کہ استاذ کو بھی اپنے شاگرد پر ناز تھا۔ وہ کون استاذ ہے جو اپنے شاگرد کو لکھ کر دے کہ جب تم چالیس سال بعد اس تحریر کو پڑھوگے تو مجھ سے آگے نکل چکے ہوگے۔ اس سے بڑھ کر کسی طالب علم کے لیے شرف کی کیا بات ہوگی کہ استاذ اپنی کتاب میں اپنے شاگرد کا قول نقل کرے۔
میں اپنے کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے حضرت کی زیارت کا ہی نہیں بلکہ آپ سے اجازت حدیث کا بھی موقع ملا۔ سنہ 2001 میں دورہ حدیث کے سال ہم نے بھی دیوبند سے مسلسلات کے سبق میں حاضری کے لیے سہارنپور کا سفر کیا۔ اس سفر میں شیخ کا پہلی مرتبہ دیدار ہوا۔ اس زمانے میں شیخ باہر سے آنے والے طلبہ کو بھی عبارت پڑھنے کی اجازت دیتے تھے۔ اس مناسبت سے میرے نام کی پرچی حضرت کے سامنے موجود تھی۔ شیخ کی نازک مزاجی کے قصے خوب سنے تھے اور ہم مزاج سے بالکل ناواقف۔ اوپر سے یہ بھی معلوم تھا کہ شیخ قلندر صفت ہیں، کہیں اللہ تعالیٰ ان کی زبان سے ہمارے دل کا حال نہ کہلوادے۔ اس پر مستزاد یہ کہ شیخ کے یہاں عبارت خوانی میں لحن جرم تھا جب کہ دیوبند میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔ خوف کے اس ماحول میں عبارت پڑھی اور اس امتحان میں الحمد للہ کامیاب رہے۔ دوران عبارت حضرت نے ایک جملہ بھی ارشاد فرمایا تھا جو بطور سند میرے سینے میں محفوظ ہے۔
دوران درس حضرت شیخ نے شاہ ولی اللہ کی کتاب الفضل المبین کے رجال پر اس تفصیل سے کلام کیا کہ گویا امام ذہبی یا ابن حجر کتب ستہ کے رجال پر کلام کررہے ہوں۔ اس عمر میں حضرت کی یادداشت نے بہت متاثر کیا۔
حضرت شیخ ایک ایسی شخصیت تھے جن کے نزدیک ان کی کتابیں ہی ان کا سب کچھ تھیں، دنیا کسے کہتے ہیں وہ جاننا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے شاگرد اور مرید شیخ یعقوب دہلوی سابق امام مسجد قبا ومشرف قاضیان مدینہ نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ “مدینہ منورہ تشریف لانے پر عرب علما ان کے جوتے سیدھے کرنا اپنا شرف سمجھتے تھے۔ ایک سفر میں ان عرب شاگردوں نے اتنے ہدایا دیے کہ ریالوں سے دو تھیلے بھر گئے۔ مدینہ سے واپسی پر شیخ نے مجھے حکم دیا کہ سارے پیسے مدینہ منورہ میں ہی غربا میں تقسیم کردوں۔ مین نے با اصرار کہا کہ حضرت اپنی ضرورت کے بقدر رکھ لیں، لیکن وہ تیار نہیں ہوے اور ایک ایک ریال صدقہ کروادیا۔ جب ایرپورٹ پہنچے تو مجھ سے کہا کہ مجھے سو ریال اس شرط پر قرض دو کہ بعد میں واپس لوگے”۔ جس شخص کے یہاں دنیا کی یہ حیثیت ہو اللہ تعالیٰ اسی کو دلوں کی بادشاہت عطا فرماتے ہیں۔
آج عجم سے لیکر عرب تک سبھی حضرت شیخ یونس کی رحلت پر ماتم کناں ہیں کیونکہ جس بخاری، ابن حجر، ذہبی اور جس خلیل احمد اور زکریا کاندھلوی کے تذکرے ہم سنتے آئے ہیں وہ سب شیخ یونس رحمہ اللہ کی شکل میں ہمارے سامنے مجسم تھے۔ اب نگاہ اٹھاکر مشرق سے مغرب تک دیکھتے ہیں تو محدثین تو ملتے ہیں لیکن امیر المومنین فی الحدیث کوئی نہیں۔ اس لیے میں دنیا کے ہر مدرسے اور ہر دار الحدیث کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔