انسان دنیا میں جس شخص سے محبت کرتا ہے اس کی ملاقات کی راہیں تلاش کرتا ہے اور اس کو کھودینے کا خوف ہمہ وقت اس کے دل کو مضطرب رکھتا ہے نتیجتاً وہ اپنے محبوب کے سامنے ہر اس عمل سے دور رہتا ہے جو محبوب کو ناراض کردے ۔ اسی طرح ایک مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب سے محبت کرتا ہے قرآن عظیم الشان میں ہے : والذین امنوا اشد حبا للہ “
یعنی ایمان والے اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔
اور حقیقت یہی ہے کہ احسان وسلوک کا راستہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شدید محبت سے ہی طے کیاجاسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سالکین اللہ سے محبت سیکھنے کے لیے باقاعدہ کسی نیک اور اللہ والے کے سامنے اپنے آپ کو بچھادیتے ہیں اور تزکیہ قلب حاصل کرتے ہیں تاکہ اللہ کی ایک محبت کی نظر اس کے دل پر پڑجائے اور اس کی زندگی بن جائے ۔
اسی کانام تصوف ہے۔یعنی اللہ کی خاطر مخلوق سے کٹنا پھر اللہ تعالیٰ کی نسبت سے مخلوق سے جڑنا یہی حاصل تصوف ہے ۔
مشائخ نے ایک اہم بات یہ بتلائی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف میں سب سے پہلے تزکیہ قلب ضروری ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سالک کے لیے سب سے پہلے اس بات کا استحضار کرنا ضروری ہے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے ۔بلکہ ہمارے محبت کرنے سے بھی پہلے اللہ ہم سے محبت کرتےہیں ۔ قرآن عظیم الشان میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یحبھم ویحبونہ
اس آیت میں اللہ نے اپنی محبت کو پہلے ذکر کیا اور بندوں کی اللہ سے محبت کو بعد میں ذکر کیا۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اللہ کو اپنے بندوں سے کس قدر محبت ہوگی ! آج ہماری اللہ سے دوری کا یہ سبب بھی ہے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہمارا پروردگار ہم سے کتنا پیار کرتا ہے ۔
حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہ نے اپنی کتاب ” خطبات فقیر ” جلد 3 کے صفحہ 16 پر ایک انتہائی خوبصورت دلیل دی ہے ۔
فرماتے ہیں کہ ” کوئی آدمی کہہ سکتا ہے کہ جی کیا دلیل کہ بندوں سے اللہ رب العزت کو محبت ہے یعنی اللہ تعالیٰ بندوں پر مہربان بھی ہے کریم بھی ہیں اللہ کی سو صفات ہیں مگر یہ دلیل کہاں کہ اللہ رب العزت کو محبت ہے ۔ اس کے بارے میں علمائے کرام نے دلائل لکھے ہیں ۔ ایک موٹی سی دلیل جو عام بندے کی سمجھ میں بھی آسکتی ہے ۔ یہ دی کہ جب کسی سے بندے کو محبت ہو تو بندہ اپنے محبوب کو جو مرضی آئے دیتا ہے اور خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو وہ اسے تھوڑا ہی سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو کچھ اور بھی کرنا چاہتا تھا کیونکہ محبت جو ہوتی ہے اور اگر محبوب تھوڑا سا کچھ اسے دے دے تو وہ اسے بہت زیادہ سمجھتا ہے پھولے نہیں سماتا کہ محبوب نے مجھے تحفہ اور ہدیہ بھیجا ہے ۔ اسی اصول کو قرآن میں دیکھیے اللہ رب العزت نے بندوں کو دنیا کی ہزاروں نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ نعمتیں عطا فرمائیں گے مگر ان تمام نعمتوں کو سامنے رکھ کر فرمایا :
قل متاع الدنیا قلیل
آپ کہہ دیجے کہ دنیا کی متاع تو تھوڑی سی ہے ۔
لیکن جب اس کے بندے نے اپنے پعرودگار کو بیٹے یا لیٹے تھوڑی دیر یاد کیا عمل اگر چہ تھوڑا سا تھا چند ساعات کا عمل یا سو پچاس سال کی زندگی کا عمل مگر چونکہ ” محبوب ” کی طرف سے یہ عمل ہوا تھا اس لیے ارشاد ہوا ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
محبوب نے عمل کیا اس کے لیے کثیر کا لفظ استعمال فرمایا اور جو خود عطا فرمایا اس کے لیے قلیل کا لفظ استعمال فرمایا ۔ معلوم ہوا اللہ کو بندوں سے محبت ہے ۔ سبحان اللہ !!!
اللہ ولی الذین امنوا
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے ۔
عورتوں نے بھی اللہ کی محبت میں بڑا مقام حاصل کیا ۔ اس سلسلے میں حضرت رابعہ بصریہ ؒ سچی عاشقہ صداقہ گزری ہیں ۔ دن بھر آقا کی خدمت میں مصروف رہتیں جب رات ہوتی تو محبوب حقیقی کے سامنے راز ونیاز کرتے ہوئے صبح کردیتیں ۔ایک مرتبہ تہجد کے وقت اللہ سے مناجات کرتے ہوئے عجیب الفاظ فرمانے لگیں :
اے اللہ ، رات آگئی دن چلاگیا ،ستارے چھٹکنے لگے دنیا کے بادشاہوں نے اپنے دروازے بند کردلیے ایک تیرا دروازہ کھلا ہے میں تجھ سے تجھی کو مانگتی ہوں ۔
اللہ اکبر
یہ الفاظ حقیقتاً کسی عاشقیہ ولی کے ہی ہوسکتے ہیں کہ کتنے پیار بھرے اندازمیں اپنے رب کو مانگ رہی ہیں ۔لہذا خواتین ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے قدم اٹھائیں اور اس سے محبت کرنے کے انداز سیکھیں تاکہ ایک ایسی قوم تیار ہو جن کے دل محبت الٰہی سے لبریز اور جن کی راتیں خوف الٰہی سے مصلے پر جاگتے گزریں آخر میں یہی دعا ہے کہ :
دل مغموم کو مسرور کردے
محبت کے نشے میں چور کردے
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی خالص محبت عطا فرمائیں۔ آمین !