نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰاٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰاتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ( البقرۃآیت۲۰۸ )
میرے محترم دوستو اور بزرگو! اللہ پاک نے اپنے آخری نبی ﷺکو دنیا میں مبعوث فرمایا۔ اللہ پاک کے ہاں اپنے نبی ﷺ کی قدر کیا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ اللہ کو یہ بھی پسند نہیں کہ ان کو ایسے پکارا جائے جیسے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔ اس لیے قرآن مجید میں فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَائَ الَّرسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَائِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا۔(سورۃ نور آیت ۳)
ترجمہ: کہ نہ بناؤ رسو ل کے پکارنے کو اپنے آپس میں ایک دوسرے کے پکارنے کی طرح۔گویا اللہ پاک کو یہ بھی پسند نہیں کہ رسول ﷺ کو اس طرح پکارا جائے کہ اوفلاں! جیسے ہم ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔ اس لیے اللہ پاک نے اپنے رسولﷺ کو خود بھی جہاں پکارا ہے پیار بھرے انداز میں کوئی نہ کوئی وصف لا کر پکارا ہے۔ کہیں مزمل کہا، کہیں مدثر کہا۔ ایک دفعہ بنو تمیم کے چند لوگ آئے اور اللہ کے رسول ﷺ کے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر ایسے پکارا جیسے ایک دوسرے کے گھر جاکر پکارتے ہیں
،یا محمد! اخرج الینا۔(اے محمد! ہمارے پاس نکل آئیے) اللہ پاک کو ان کا یہ طرز ِ عمل پسند نہیں آیا اور قرآن پاک کی یہ آیات اُتاردیں: اِنَّّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَائِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ (الحجرات: آیت۴)
ترجمہ: بے شک جو لوگ حجرے کے باہر کھڑے ہوکر آپ کو پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔
(تفسیر ابن کثیر: ۵/۶۴۷، طبع قدیمی)
اللہ پاک کو اپنے نبیﷺکی عزت بہت مطلوب ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کو اپنے نبی ﷺ کی عزت بہت مطلوب ہے۔ وہ اللہ جو اپنے نبی ﷺ کی ذرا بھی بے ادبی برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے نبی ﷺ کے لیے دین کے معاملے میں ہر طعنہ ہر ناگوار بات برداشت کرلیتا ہے لیکن اپنے دین میں ذرا بھی تغیروتبدل کرناگوارا نہیں کرتا، لوگوں نے نبی ﷺکو کیا کچھ نہیں کہا ، مجنون کہا گیا، جادوگر کہا گیا، شاعر کہا گیا ان سب طعنوں کو سننا اور برداشت کرناگوارا کرلیا مگر دین کے اندر تبدیلی گوارا نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ عرب معاشرے میں جو غلط قسم کی باتیں رواج میں تھیں ان کو ختم کرکے لوگوں کے سامنے دین کی صحیح شکل پیش کرنے کے لیے اپنے نبی ﷺکو کہا گیاکہ آپ کو خواہ لوگوں کے طعنے سننے پڑیں اور لوگوں کی باتیں برداشت کرنی پڑیں مگر جو اللہ پاک کا دین ہے اس کوصحیح صحیح لوگوں کو پہنچائیں تاکہ لوگ صحیح دین تک پہنچ جائیں اور لوگوں کے لیے دین میں کوئی تنگی نہ رہے۔
لے پالک بیٹے کی اپنے نام سے ولدیت:
عرب معاشرے میں لے پالک اور متبنیٰ کو پال کر اس کو اپنی ولدیت دینے کا عام رواج تھالیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اولاد اپنے باپ ہی کے نام سے پکا ری جائے۔ اس لیے اس رسم کو ختم کرنے کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کو جن کو آپ ﷺ نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا اور ان کو لوگ زید بن محمد کہنے لگے تھے، قرآن پاک کے ذریعے دوبارہ زید بن حارثہ کہلوا کر ختم کروایا ۔
متبنٰی بیٹے کی بیوی سے نکاح:
اسی طرح عرب معاشرے میں متبنیٰ بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا اس طرح حرام سمجھا جاتا تھا جس طرح حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا حرام سمجھا جاتا تھا۔اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺکو اس بات کے لیے تیار کیا اور حکم دیا کہ یہ غلط مسئلہ لوگوں میں رائج ہے اس کے خلاف خود قدم اٹھائیں اور اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ ص کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرکے دنیا کو یہ سبق دے دیں کہ بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی ہے مگر دین نہیںبدلا جاسکتا۔یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے ذرا پس و پیش کیا تو اللہ پاک کو کہنا پڑا وَتَخْشَی النَّاسَ آپ لوگوں کے طعنوں سے خائف ہوگئے وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ حالانکہ اللہ زیادہ حق دارہے کہ اس سے ڈرا جائے (الاحزاب: ۳)
آج کا مسلمان ربیع الاوّل کے مہینے میں کتنی ہی تبدیلیاں اپنے طور پر کرتا ہے جس میں بعض دفعہ دین کی صحیح شکل ہی تبدیل ہوجاتی ہے مگر اس کو یہ خیال نہیں آتا کہ دین کی صحیح شکل باقی رکھنے کے لیے اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺ کو خود ایسے طعنے سننے کے لیے تیار فرمایا تاکہ دین اپنی اصلی شکل میں باقی رہے۔
صفر کے مہینے کی رسومات :
اس طرح آج کا مسلمان صفر کے مہینے میں اللہ پاک کے نبی ﷺکے صریح احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ صاف فرماتے ہیں کہ لوگو! لاصفر صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں۔ (مشکوۃ: ص ۳۹۱ باب الفال والطیرۃ بحوالہ مسلم )بخاری ،مسلم ،ترمذی سب میں یہ حدیث موجود ہے۔
مگر وہ اپنی طرف سے دین میں تبدیلی کردیتا ہے اور اللہ پاک کے نبی ﷺکے فرمان کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور صفر کے مہینے کی نحوست کا تصور اسکے دل میں ایسا جاگزیں ہے کہ کبھی کہتا ہے کہ تیرہ تیزی کا مہینہ ہے، بلائیں اترتی ہیں، نکاح میں بے برکتی ہوتی ہے۔ صفر میں شادی صفر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سب باتیں اللہ پاک کے نبی ﷺ کی حدیث کے صریح خلاف ہیں۔ اس طرح آج کا مسلمان اللہ پاک کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کے دین میں کوئی فرق نہیں آتا۔
مطلقہ عورتوں کا عدت میں گھر سے نکلنا:
قرآن کریم عدت والی عورتوں کو جو مطلقہ ہوں، حکم دیتا ہے کہ وَلاَ تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنْ (سورۃ طلاق آیت ۱ پارہ ۲۸)نہ نکالو ان کو گھروں سے اور نہ وہ خود نکلیں۔لیکن موجودہ دور میں طلاق ہوتے ہی عورت اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہے اور اللہ پاک کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتی ہے اور اس طرح خاوند کے فوت ہونے پر ہم نے یہ مسئلہ اپنی طرف سے بڑھارکھا ہے کہ اگر عورت میت کی چارپائی کے ساتھ گھر سے باہر نکل جائے توعدت باقی نہیں رہتی۔ عورت جہاں چاہے جاسکتی ہے، آسکتی ہے، حالانکہ علماء نے یہ مسئلہ واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ اس عورت کوعدت کے دوران بلاضرورت نکلنا جائز نہیں ہے اور عدت اس گھر میں پوری کرے جس میں خاوند کے ساتھ ٹھہری ہوئی تھی۔
دین میں تبدیلی کرنے کاانجام:
اس طرح ہم جگہ جگہ اللہ کا دین بدلتے ہیں اور اس کو گناہ بھی نہیں سمجھتے اگر غور کیا جائے تو یہ بہت بڑی جرأت ہے کیونکہ دین کے احکام دینا نبی کا کام ہے نہ کہ کسی اور کا۔ یہ اپنی طرف سے احکام کو گھڑنے والے اور دین میں تبدیلیاں کرنے والے اپنے لیے کتنے بڑے منصب کا دعویٰ کرتے ہیں کہ جو حکم اللہ کے رسول ﷺدے سکتے ہیں وہ ہم بھی دے سکتے ہیں۔ اسی لیے اللہ جل شانہ قیامت میںایسے لوگوں کو اپنے نبیﷺکے حوض سے دھکے دلوائیں گے اور نبی ﷺکہیں گے کہ بھئی! ان کو آنے دو یہ میرے امتی ہیں۔ فرشتے جواب دیں گے کہ ’’یہ آپ کے بعد دین میں تبدیلی کرتے رہے۔ ‘‘حضور ﷺ بھی کہیں گے کہ’’ سحقاً ، سحقاً ہٹادو، ہٹادو، ان کو مجھ سے دور کردو۔ انہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا تھا۔‘‘ (مسلم: ۲/۲۴۹ مکتبہ قدیمی کتب خانہ)
یہ کتنی بڑی محرومی ہے۔ اللہ پاک اس محرومی سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے اور دین میں ہرقسم کی تبدیلی سے اُمت مسلمہ کوبچائے اور نبی ﷺکی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین