نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o
(سورۃ ال عمران آیت ۳۱)
میرے محترم دوستو اور بزرگو! آج چند باتیں سیرت کے اعتبار سے عرض کرنی ہیں۔ ایک اللہ کے نبی کی صورت ہے اور ایک سیرت آپ ﷺکی صورت کیسی تھی علماء نے احادیث کی روشنی میں بہت کچھ ذکر کیا ہے خوب کھول کھول کر۔ میرے دوستو! ہم حضورﷺ کی صورت کا اندازہ کرہی نہیں سکتے، ان جیسی صورت دنیا میں کسی کودی ہی نہیں گئی۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر عورتوں نے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ۔حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ: ’’ واحسن منک لم تر قط عینی ، و اجمل منک لم تلد النساء ، خلقت مبر ا من کل عیب، کانک قد خلقت کما تشاء(شرح دیوان حسان بن ثابت: ص۱) ‘‘
اے نبی !اللہ نے آپ کو ایسا خوبصورت بنایا ہے کہ آج تک کسی آنکھ نے ایسا دیکھا ہی نہیں ، کوئی دیکھتا بھی کیسے کہ کسی ماں نے ایسا کوئی جنا ہی نہیں اور آپ ہر عیب سے پاک ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جیسا آپ ﷺنے چاہا ویسا ہی بنایا ہے۔
دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کو یہ اختیار دیدیا جائے کہ وہ اپنے لیے جو چاہے پسند کر لے ۔ لیکن قیامت میں جو آپ ﷺکے طریقے پر عمل کرکے گیا ہوگا تو وہاں بندہ کو اختیار دیا جائے گا، جنت میں ایک بازار ہوگاجس میں مختلف شکلیں ہوں گی اور جنتیوں کو اختیار دیا جائے گاکہ ان میں سے جو شکل پسند ہو وہ بتا دے ایک لحظے میں وہی شکل بن جائے گی ۔(ترمذی شریف)
لیکن اس دنیا میں کسی کو ایسا اختیار ملنا ممکن نہیں بلکہ ایسی تمنا کرنے کو ہی قرآن میں منع کیا گیاہے۔قرآن میں فرما یا ہے کہ ’’اے ایمان والو !ایسی تمنا ہی نہ کیا کرو جو تمہارے بس میں نہ ہو‘‘(النساء: آیت ۳۲)جیسے بعض عورتیں کہتی ہیں کہ ہم مرد بن جاتے ،اسی طرح بعض مرد عورتیں بننا چاہتے ہیں ۔
ایک مفتی صاحب سے ملا ان کے پاس ایک خط آیا کہ مرد ،عورت بننا چاہتا ہے اور عورت مرد ،یہ مسئلہ آیا کہ اس سے مل سکتے ہیں کہ نہیں ،یہ اخبار میں مسئلہ آگیا ہو گا۔لہٰذا ان چیزوں سے منع کیا گیا ہے ،جیسے رنگ سفید کرنے کے لیے تدابیر اور تمنا کرتے رہیں جوکہ ہونہیں سکتا۔
سنتوں کو اختیار کرکے آپ جیسا بنو:
بہر حال ایک نبی ﷺکی صورت ہے اور ایک سیرت ہے، کوئی چاہے کہ میرے ہونٹ آپ ﷺجیسے ہوجائیں میرے بال آپﷺ جیسے ہوجائیں، صورت ان جیسی ہوجائے، ظاہری شکل میں ہمیں نبی ﷺجیسا بننے کی تمنا کرنا صحیح نہیں ہے، یہ حرام ہوگا۔ ہاں تذکرہ کرنا باعث ثواب اور اجر ہوگا۔ لیکن عملی زندگی میں ہم اپنی زندگی میں سنت ایک ایک کرکے لائیں گے تو اللہ رب العزت کے محبوب بن جائیں گے ۔فرمایا: ان کنتم تحبون اللّٰہ اگر تم میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو فاتبعونی یحببکم اﷲ آپ ﷺکی اتباع کرو میرے محبوب بن جاؤگے۔اختیاری عمل کو اپنانے سے اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جائیں گے ،جس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ویغفرلکم ذنوبکم’’تمہارے گناہ معاف کردوں گا ‘‘جب کہ شیطان وساوس ڈالے گا کہ دیکھو مولوی آگیا طعنے ملیں گے ،اگر کل اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے چہرہ مبارک پھیر لیا تو تمہارا کیا ہوگا ؟
ایک آدمی سے ایک بات سنی سن کر بہت افسوس ہوا ،اس نے ہماری مسجد میں جو بیان ہوتا ہے اس میں ایک پرچی لکھی کہ یہ خیال تھا کہ جب حج پر جاؤں گا تو داڑھی رکھوں گا لیکن بیوی کو پتا چلا کہ داڑھی کا ارادہ ہے تو اس نے شوہر سے کہا کہ اگر داڑھی رکھ لی تو گھرمیں نہ آنا ،بتائیے اس کے نکاح کا کیا ہوگا ؟ایمان کا کیا بنا؟کیا وہ ساری عمر زنا کا مرتکب نہ ہوگا ؟العیا ذ باللہ۔ ایک کفن چور تھا تو اس سے پوچھا گیاکہ تم نے تو مردوں کی حالت مرنے کے بعد دیکھی ہو گی، بتا ؤکیا حال ہوتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اکثرکا رخ قبلے سے ہٹا ہوا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب مرد ہ کو دفنا یا جائے تواس کا رخ پوری کرو ٹ دلا کرقبلہ کی طرف کیا جائے، چاہے دیوار سے لگایا جائے یا اینٹ لگائی جائے۔ ایک عالم نے فرمایا صرف وجہ یہ ہے کہ اس کا عمل سنت سے دور تھا جس کا ثمرہ مرنے کے بعد مل رہاہے ۔
ہم عمل کرتے ہوئے سوچیں کہ گناہ ہمیں کہاں لے جارہاہے ،کسی سے بدگمانی نہ کریں جوکہ حرام ہے،لیکن اکثر میں نے یہ دیکھا ہے کہ جو آپ ﷺکی سنتوں پر عمل کرتے ہیں ان کا چہرہ مرتے وقت خودبخود قبلہ کی طرف ہوجاتاہے ،چاہے جیسے ہی ہو۔لیکن اگر کسی کا چہرہ قبلہ رخ نہ ہو تو لوگ بات بنانا شروع کردیتے ہیں، فیصلہ ہم نہ کریں کہ فلاں بندہ سے کیا گناہ ہوا کہ عذاب مل رہا ہے بلکہ حسن ظن رکھیں، بدگمانی نہ کریں ،آخری وقت میں کسی کو تکلیف میں دیکھ کر بدگمانی نہ کریں، ہاں جولوگ بدعت کرتے ہیں ان سے عبرت حاصل کریں ۔
عمل کی ظاہری و باطنی صورت:
میرے دوستو! ایک عمل کی ظاہری صورت ہوتی ہے، جو ہمیں نظر آتی ہے۔ایک عمل کی باطنی صورت ہوتی ہے۔بعض دفعہ اللہ دنیا میں اپنے نیک بندوں کو دکھا دیتے ہیں۔
حضرت کشمیری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ قیامت میں حوضِ کوثر سنت کی شکل بن جائے گی، جیسے شریعت پل صراط بن جائے گی۔ لوگ مرنے پر کھانایتیموں کے گھر کا کھا تے ہیں مختلف رسموں کے نام پر۔ ان سے بچیں۔اس کو قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ آج کھا رہے ہیں یہ کھانا نہیں ہے بلکہ آگ ہے جس کو یہ اپنے پیٹوں میں بھر رہے ہیں۔
(پارہ نمبر ۴ سورۃ النساء آیت نمبر ۱۱)
بعض اللہ والوں میں شاید شاہ اسماعیل محدث دھلوی ہیں کہ اپنے چہرہ کو ہر وقت کپڑے سے ڈھانپ کر رکھتے تھے، ایک شخص ساتھ تھا اس نے پوچھا کہ حضرت آپ ہر وقت چہرہ کیوں ڈھانپتے ہیں۔ حضرت نے اس کو اپنی ٹوپی پہنادی جس سے بعض لوگ خنزیر لگ رہے تھے، کوئی کتا لگ رہا تھا وغیرہ ۔حضرت لاہوری ؒکے بارے میں آتا ہے کہ بے نمازی کے ہاتھ کا حضرت کھانا نہیں کھاتے تھے،ایک شخص نے کہا آپ کھانا کھالیں۔ حضرت نے فرمایا کہ میں بے نمازی کے ہاتھ کی روٹی نہیں کھاتا تووہ شخص روٹی پکواکر لایا جس میں کچھ روٹیاں تو نمازی کے ہا تھ کی تھیں اور کچھ بے نمازی کے ہاتھ کی۔ حضرت وہ روٹیاں الگ کرتے رہے ۔ وہاں قیامت میں تو سب کو نظر آئے گا ،خاص کر کافروں کو ۔ جیسے اللہ نے قرآن میں کافروں کو خطاب کر کے فرما یا ہے کہ آج ہم نے تیری آنکھ سے پردے اٹھا دیے، آج تو تیری نظر بہت تیز ہو گئی۔ا سی طرح سود کھانے والوں کا عذاب معراج کے موقع پر اللہ کے نبی نے سانپ اور بچھوؤں کی شکل میں دیکھا تھا، لہٰذا ہم بچتے رہیں گناہوں سے سود سے رشوت سے اور ہرگناہ سے ۔
سنت کو اپنانا ہوگا:
آج بدعتیں بڑھتی جارہی ہیں ’’خود رو جھاڑی ‘‘مثال ہے بدعت کی، یہ جھاڑی اصل کو مٹادیتی ہے ۔لہٰذا جو عقل مند ہوگا پہلے ان خود رو جھاڑیوں کو صاف کرے گا ورنہ فصل نہ اُگے گی۔ لہٰذا سنت کو اپنانا ہوگا ،بدعات کو چھوڑنا ہوگا ورنہ کل قیامت میں آپ ﷺاپنے حوض کوثر سے ہٹادیں گے ۔لہٰذا ہم سب کو سنت پر عمل کرنا چاہیے! جیسے بیت الخلاء جائیں تو سر پر کپڑا رکھیں ، بایاں پاؤں داخل کریں ،قبلہ کی طرف پیٹھ نہ کریں نہ منہ کریں ۔ ورنہ اللہ والے نہ بنیں گے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے سنت کو اپنائیں اور دعا پڑھتے ہوئے داخل ہوں کیوں کہ یہ جنات کا مسکن ہے۔ ان کے وساوس سے بچنے کے لیے دعاکا اہتمام کریں ان شاء اللہ کوئی جن اور شیطان نقصان نہ دے گا ۔اسی طرح جب باہر آئیں تو واپسی کی دُعا پڑھیں اور شکر ادا کریں اور ترجمہ پر نظر رکھیں ،ان سے پوچھیے بے چینی کا جن کا پیشاب تھوڑی دیر کے لیے رک جائے یا پاخانہ رک جائے توکیسا عجیب حال ہوتا ہے انسان کا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر ادا کریں اور جوکوئی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے گا تو اس کی نعمتوں کو بڑھایا جائے گا ،لہٰذا سنتوں پر عمل کریں اور کمی کوتاہیوں پر معافی مانگیں اللآہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔
(آمین)