بعض اوقات ایسا کوئی واقعہ نظر سے گزرتا ہے جو بظاہر ناقابل یقین ہوتا ہے اور دل و دماغ اس کو تسلیم نہیں کرتا مگر وہ حقیقت ہوتا ہے اور اپنے پیچھے ایک سبق چھوڑ جاتا ہے جو کہ کسی غیبی معاملے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ حال ہی میں آتشزدگی کا ایک واقعہ حاجی کیمپ ٹمبر مارکیٹ میں پیش آیا تھا۔ جس کا کئی روز تک میڈیا پر بھی چرچا رہا۔ اس واقعہ کے چند روز بعد بندے کا اس مارکیٹ کے پاس سے گزر ہوا۔ ایسے ہی دل میں خیال آیا کہ ذرا متاثرہ مارکیٹ کو دیکھا جائے۔ کیونکہ یہ آتش زدگی کا بڑا واقعہ تھا جس میں دو دن تک آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا تھا اور لوگوں کا لاکھوں کا نقصان ہوا تھا۔
چنانچہ بندہ اس مارکیٹ میں پہنچ گیا اور اندر کی صورت حال دیکھنے لگا۔ مارکیٹ کی حالت یہ تھی کہ کسی بھی دکان کا مال نہیں بچا تھا اور پوری متاثرہ مارکیٹ کوئلہ کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہی تھی اور آگ کی شدت اس درجہ کی تھی کہ دکانوں کے لوہے کے گاڈر تک پگھل کر دہرے ہوچکے تھے۔ اصل میں اس مارکیٹ کی دکانیں پکی بنی ہوئی نہیں تھیں بلکہ لوہے کے گاڈروں کو زمین میں گاڑ کر ان کے اطراف ٹین کی چادریں لگا کر دکانیں بنائی گئی تھیں
جو کہ اب جلی ہوئی لکڑی اور مڑے ہوئے لوہے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ لیکن حیران کن بات جو وہاں دیکھی وہ یہ کہ جب بندہ متاثرہ مارکیٹ دیکھ کر باہر نکلنے لگا تو گودام کے گیٹ کے پاس ایک منظر نے بندے کے قدم روک لیے۔ منظر یہ تھا کہ لوہے کا ایک پائپ زمین میں گڑا ہوا تھا۔ جس پر دھوئیں اور آگ کے اثرات تھے اور اس پائپ پر لوہے کے ایک نٹ پر لکڑی کا ایک ہاتھ لمبا اور ایک بالشت چوڑا تختہ لوہے کے تار سے بندھا ہوا تھا۔ اس تختہ پر پیتل کی پتری سے بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا۔ لکڑی کا یہ تختہ بالکل صحیح سالم تھا اور اس پر آگ کے نشانات تو کجا آگ کا دھواں بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ جبکہ جس پائپ پر یہ تختہ لٹکا ہوا تھا اس کے بالکل برابر میں ایک لکڑی کی بلی لوہے کے ہک سے دیوار میں لگی ہوئی تھی جو کہ اب جل کر کوئلہ بن چکی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر بندے نے وہاں کھڑے ایک مقامی آدمی سے پوچھا کہ کیا یہ بسم اﷲ کا کتبہ آگ لگنے کے بعد لگایا گیا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ یہ تو بہت عرصہ سے یہاں لگا ہوا ہے اور اﷲ کی قدرت دیکھو جب آگ لگی تھی تو اس وقت یہ یہیں تھا مگر آگ نے اس کو نقصان نہ پہنچایا۔ پھر وہ شخص کہنے لگا کہ آپ سامنے میرے فلیٹ کی گیلری کی طرف دیکھو آگ کی شدت کی وجہ سے اس گیلری کا چھجہ گر چکا ہے اور لوہے کی گرل آگ کی شدت کی وجہ سے پگھل کر مڑ چکی ہے۔ مگر اس کتبہ کو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر بندے کے ذہن میں قرآن کی یہ آیت آئی اﷲ تعالیٰ اپنے کلام کے بارے میں فرماتے ہیں انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔ یہ ذکر یعنی قرآن ہم نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ بیشک اﷲ تعالیٰ نے جہاں قرآن مجید کی اور اس کی آیات کی باطنی حفاظت فرمائی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ظاہری حفاظت کے مناظر بھی ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ دکھا دیتے ہیں۔
اس واقعہ سے ایک سبق یہ ذہن میں آیا کہ جب اﷲ تعالیٰ اس شدت کی آگ میں اس بسم اﷲ لکھے ہوئے لکڑی کے تختہ کی حفاظت فرما سکتے ہیں تو کیا جس کے دل میں اﷲ کا نام ہو اور جس کی زبان پر اس کا ذکر ہو تو اﷲ اس کی حفاظت نہ فرمائیں گے۔ بیشک ضرور اﷲ اس کی حفاظت اس سے بھی زیادہ فرمائیں گے۔ لیکن اصل بات اﷲ تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھنے اور اس پر بھروسہ اور اعتماد کی ہے۔ کہ رب الانسان تو ہر لمحہ اس کی حفاظت کے لیے تیار ہے مگر انسان ہی اس کو بھلا بیٹھا ہے۔
Load/Hide Comments