نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَت… الخ (سورۃ البقرہ، پارہ نمبر: ۳ ،آیت :۲۸۶)
اﷲ کے تین تحفے :
میرے محترم دوستو اور بزرگو! اللہ کے نبی ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ نے آپ کو تین تحفے عطا فرمائے۔ ان تین تحفوں میں پہلا تحفہ پانچ وقت کی نماز، دوسرا تحفہ سورۂ بقرہ کی آخری آیات اور تیسرا تحفہ یہ کہ آپ کی امت میں سے جو شخص شرک نہ کرتا ہوگا اللہ اس کو معاف کر دیں گے۔(تفسیر ابن کثیر : ۱/۶۷۰ بحوالہ مسلم طبع قدیمی کتب خانہ)
دوسرا تحفہ جو سورہ بقرہ کی آخری آیات ہیں، یہ آیات بڑی جامع ہیں اور ان آیات میں اللہ نے وہ اصول صاف صاف بیان فرما دئیے ہیں جو اللہ کے احکام کو پورا کر تے ہوئے زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہیں۔
میرے دوستو! سورۂ بقرہ کے آخر میں اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا (سورۃ البقرۃ پارہ نمبر ۳ آیت ۲۸۶)
لوگو! اللہ کسی نفس کو تکلیف نہیں دیتے،کسی کو ایسا حکم نہیں دیتے جو اس کی طاقت سے باہر ہوبلکہ جو حکم بھی وہ دیتے ہیں وہ انسان کی طاقت کے بالکل اندر ہوتا ہے۔ تو اب کچھ اللہ کے احکام کو پورا کرنے والے ہوں گے اور کچھ اللہ کے احکام کو پورا نہ کرنے والے ہوں گے۔ ان دونوں گروہوں کو ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ انسان کو وہی ملے گا جو وہ کمائے گا، جو کوشش کرے گاوہی پائے گا اور جو نہیں کرے گا نقصان اٹھائے گا، اس کا صلہ بھی اس کو دیا جائے گا۔ یعنی نفع بھی انسان کے نفس کو ملے گا اور نقصان بھی انسان کے نفس کو ملے گا۔ اللہ کو نہ تمہارے کچھ کرنے سے فائدہ ہے اور نہ تو نہ کرنے سے کچھ نقصان ہے۔اللہ تمہیں جو حکم دیتے ہیں اس میں تمہارے نفس کا فائدہ ہے اور پورا نہ کرنے پر تمہارے نفس کا نقصان ہے اور تمہار ا نفس اس سے نقصان اٹھاتا ہے۔
اﷲ کا کوئی حکم طاقت سے باہر نہیں:
میرے دوستو! اگر غور کیاجائے تو یہ ایک ایسا اصول ہے ، ایسا ضابطہ اللہ نے بیان فرما دیا کہ ہماری جتنی عبادات ہیں، خاص طور پر شریعت نے جو عبادات ہم پر لازم قرار دی ہیں،یہ سب اس میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر نماز کو لے لیں۔بعض لوگ نماز کے بارے میں کہا کرتے ہیں کہ جی کیا کریں ہمیں فرصت نہیں ، وقت ہی نہیں نکلتا۔کوئی کہتا ہے ہمارے اندر ہمت ہی نہیں،کوئی کہتا ہے ہمیں موقع ہی نہیں ملتا۔ معلوم ہوا یہ سارے شیطانی دھوکے ہیں کیونکہ اللہ نے نماز کا سب سے پہلے حکم دیا ہے۔ لازمی بات ہے کہ نماز کی طاقت انسان کے اندر ہو گی اسی لیے تواللہ نے نماز کا حکم انسان کو دیا ہے ورنہ اللہ کبھی انسان کو یہ حکم نہ دیتے۔ ا س لیے انسان اگر نماز کی ادائیگی نہیں کرتا تویہ انسا ن کے اپنے نفس کا بہانہ ہے، اس کا نتیجہ اس کو بھگتنا ہوگا۔ اسی کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے کہ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ اسی پر نقصان آئے گا اس کا جو برائی اس نے کمائی ہے ۔
اس لیے میرے دوستو! اللہ کے ہاں ہمارے یہ بہانے قیامت کے دن کبھی بھی نہ چل سکیں گے کہ اے اللہ !ہم تو نماز پڑھنا چاہتے تھے لیکن ہمارے اندر ہمت اور طاقت نہیں تھی، ہماری یہ مجبوری تھی وہ مجبوری تھی، ہمیں کاروبار سے فرصت نہیں تھی کاروبار ہی ہمارا اتنا تھا کہ اگر ہم کاروبار چھوڑتے تو ہمارا نقصان ہو جاتا۔ اسی طرح کے بہانے آج انسان عام طور پر کیا کرتاہے جن کا اس دن کوئی وزن نہیں ہوگا۔
ایک آدمی یہی بات کہنے لگا کہ اجی ہمیں نماز کی فرصت کہاں؟ ہمیں تو کان کھجانے کی فرصت نہیں ۔یعنی معاذاللہ معاذاللہ !ا للہ نے ان پر کوئی ظلم کیا ہے کہ ان پر نماز کو فرض کردیا ہے۔ میرے دوستو یہ بہت ہی بڑا شیطانی دھوکہ ہے اور اس سے نکلنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے صاف صاف بتلا دیا کہ اے بندے! ہم نے کوئی حکم ایسا دیا ہی نہیں کہ تیرے اندر اس کی طاقت نہ ہو۔ اسی کو فرمایا کہ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفَسًا اِلاَّوُسْعَھَا ہم نے ہر نفس کو حکم دیا ہے، اس کو مکلف بنایا ہے اسی چیز کاجس کی اس کے اندر طاقت ہے۔
اب مثال کے طور پر روزے کا معاملہ آرہاہے، اب کتنے ایسے مسلمان ہیں جن کے دل میں شیطان وسوسہ ڈالے گاکہ تجھے سارا دن بڑا کام کرناہے اور تو کام اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کرتا ہے اور رزق حلال کماتا ہے اور بچوں کا پیٹ پالنا اللہ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ہے،اگر تو روزہ رکھے گا تو بچوں کا پیٹ نہیں پال سکے گا لہٰذا روزہ چھوڑ دو۔ میرے دوستو! یہ صرف شیطانی دھوکہ اور نفس کا بہانہ ہے ورنہ شدت کی گرمی میں ، میں نے خود مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی شدید گرمی میں، وہ گرمی ایسی ہوتی ہے جو وہاں گئے ہیں بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ انتہائی شدید گرمی ہوتی ہے بلکہ بعض پتھر ایسے ہوتے ہیں کہ آپ ان پرایک منٹ کے لیے بھی کھڑے نہیں ہو سکتے یعنی آپ کو اتنی شدید حدت محسوس ہوگی،بے چینی شروع ہو جائے گی کہ آپ پاؤں ہٹانے پر مجبور ہو جائیں گے، اس گرمی میں دوپہر کے وقت روزے کی حالت میں بعض پاکستانی مسلمانوں کو کام کرتے دیکھا کہ کام بھی کر رہے ہیں اور روزہ بھی رکھا ہوا ہے،گڑھا بھی کھود رہے ہیں مگر روزہ نہیں چھوڑ رہے۔ کیا وہ لوہے کے بنے ہوئے ہیں اور ہم کسی اور چیز کے بنے ہوئے ہیں کہ وہ تو رکھ سکتے ہیں اور ہم چھوڑرہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ صرف شیطانی بہانہ ہے ورنہ اللہ نے ہمارے اندر اتنی طاقت رکھی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو روزہ رکھ سکتے ہیں۔ شیطان ہمیں یہ ورغلاتا ہے کہ روزہ رکھو گے تو پیاس سے بے ہوش ہو جاؤگے، بیمار ہو جاؤگے، ہو سکتا ہے موت بھی آجائے اس لیے روزہ نہ رکھا جائے ۔
اﷲ خود مل جائیں:
میرے دوستو! یاد رکھیے یہ روزہ اللہ Jکی ایسی نعمت ہے کہ علمائے کرام فر ماتے ہیںکہ روزہ اتنی بڑی عبادت ہے کہ اللہ J فرماتے ہیں کہ ہر عبادت کا بدلہ میں خود نہیں دیا کرتا لیکن روزہ ایسی عبادت ہے کہ انا اَجْزِیْ بہ
(حدیث ترمذی: ۱/۱۰۹، ابواب الصوم)
اس کا بدلہ میں خود دیتا ہوں یعنی براہ راست اللہ Jخود اس کا بدلہ دیتے ہیں۔ بلکہ بعض علمائے کرام نے تو اس کو مجہول پڑھاہے، تو عربی قاعدہ کے اعتبار سے انا اُجْزٰی بہ اس کا مطلب یہ بن جائے گاکہ لوگو !باقی ہر چیز کا بدلہ مل جائے گا، کسی کو کچھ مل گیا ، کسی کو جنت مل گئی لیکن روزہ ایسی عبادت ہے کہ اس کا بدلہ میں خود ہوتا ہوں یعنی میں خود تمہیں مل جاؤں گا۔ جنت نہیں دوسری چیزیں نہیں بلکہ اللہ خود مل جاتے ہیں۔ جس کو اللہ مل جائیں اس کو اور کیا چاہئے ۔ میرے دوستو! جس کے اللہ ہو گئے سب چیزیں اس کی ہو گئیں۔
مشہور واقعہ ہے محمود غزنوی نے ایک دفعہ اپنے درباریوں اور مصاحبوں کا امتحان لینے کے لیے کہا کہ بھئی! یہ چیزیں پڑی ہوئی ہیں، جو جس چیز کے اوپر ہاتھ رکھ دے گا وہ اس کی ہو جائے گی۔بہت اعلیٰ اعلیٰ چیزیں رکھی ہوئی تھیں، ہیرے جواہرات دینار درہم سب کچھ رکھا ہوا تھا۔ درباریوں اور وزیروں نے ان اعلیٰ اعلیٰ چیزوں پر ہاتھ رکھ دیااور ان کو لے لیامگر ایاز نے کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ محمودنے ایاز سے کہا کہ تم بھی کوئی چیز لے لو۔ایاز نے کہا کہ میں جس چیز پر بھی ہاتھ رکھوں گاوہ میری ہو جائے گی۔
محمود نے کہا کہ ہاں وہ تمہاری ہوجائے گی۔ ایاز بادشاہ کے پیچھے کھڑا تھا اس نے فوراً محمود پر ہاتھ رکھ دیااور کہا کہ میں آپ کو لیتا ہوں۔ یہ ساری چیزیں آپ کی ہیں اگر آپ مل گئے تو یہ ساری چیزیں میری ہیں اور آپ نہ ملے تو مجھے کچھ بھی نہ ملے گا۔ معلوم ہواکہ اللہ ملیں گے تو سب کچھ ملے گا، سب چیزیں ملیں گی اور اللہ نہ ملے تو کچھ بھی نہ ملے گا۔
روزوں کی قدر کیجیے:
میرے دوستو!روزہ وہ عبادت ہے کہ اللہJ فرماتے ہیں میں خود مل جاتا ہوں۔ اس سے بڑی او ر اعلیٰ عبادت کیا ہو گی کہ اس کے ذریعہ ہمیں اللہ خود ملتے ہیں۔ اب لازمی بات ہے کہ جتنی بڑی چیز لینی ہو اتنی زیادہ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے نمازمیں عام طور پر لوگوں کو مشقت اٹھانا پڑتی ہے، صبح اٹھنا پڑتا ہے،بعض دفعہ سردی کا زمانہ ہوتا ہے بستر سے اُٹھنا مشکل ہوتاہے، انسان کے لیے وضو کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن میرے دوستو !یہ مشقت بھی بہت کم ہے،اگر اللہ لینے ہیں تو تھوڑی مشقت اٹھانا پڑے گی۔ اگر دن کو تھوڑا بھوکا پیاسا رہ لیں گے تھوڑی مشقت اٹھا لیں گے تو سوچئے اس کا بدلہ کتنا عظیم ہے، اس بدلے کے سامنے یہ مشقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔اللہ جل شانہ کے مقابلے میں ان تکلیفوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
میرے دوستو! ان روزوں کی قدر کیجیے ، اگر آج تک کسی نے روزہ نہ رکھا ہو تو وہ اس بات کا ارادہ کر لے کہ آج کے بعد روزہ نہیں چھوڑنا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے ،کوئی بھی پریشانی آجائے روزہ ہر گزنہیںچھوڑنا۔ ارادہ انسان کرلے اللہ بھی مدد فرما دیتے ہیں۔
میرے دوستو! اللہ ہمیں توفیق عطافرمائے کہ اللہ کا آنے والا مہمان مہینہ جو رمضان ہےاس کی قدر کریں۔ اس کا کوئی حکم نہیں چھوڑیں، راتوں کی عبادت ہو، دن کی بھوک پیاس ہو، صدقات ہوں، زکوٰۃ ہو، کچھ بھی نہ چھوڑیں۔ یہ سارے حکم ہماری طاقت کے اندر ہیں، ہماری طاقت سے باہرنہیں۔ میرے دوستو! جب ہم ان حکموں کو پورا کریں گے تو اللہ اپنے انعامات کے وہ دروازے کھولے گاکہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب ہم اللہ کے لیے ہو جائیں گے، اللہ کے حکموں کو پورا کریں گے تو اللہ بھی ہماری مدد فرمائیں گے۔ اللہ ہم سب کو رمضان کے سارے روزے اہتمام سے رکھنے کی توفیق عطا فرمادیں۔ ارادہ کرنا ہمارا کام ہے اور پورا کرنا اللہ کا کام ہے۔ اللہ ہم سب کو تمام احکام بجا لانے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین