فتویٰ نمبر:1091
سوال: “الاصل فی الاشیاء الاباحة” کیا یہ قاعدہ کلیہ ہے؟
الجواب حامداو مصليا
یہ قاعدہ ضرور ہے مگر اس کا دائرہ کار طب وعملیات اور سود کےبعلاعہ دیگر مالی معاملات وغیرہ ہیں۔ ان چیزوں میں اصل اباحت ہے جب تک حرمت کی کوئی دلیل نہ ہو انہیں حرام نہیں کہہ سکتے ۔ یہ بہت عام نہیں ہے اس کا دائرہ کار محدود ہے۔
اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں:۔
“الم تروا ان اللہ سخر لکم ما فی السماوات و ما فی الارض و اسبغ علیکم نعمۃ ظاہرۃ و باطنۃ و من الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم و لا ھدی و لا کتاب منیر”۔
{سورۃ لقمان آیت ۲۰}
حدیث مبارکہ:۔
“سلمان الفارسي قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء قال الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه”
{سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمہ ۳۳۶۷}
“ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا”۔
{البسوط السرخسی ۲۴/۷۷}
“ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا”۔
{ابن عبد البر التمہید۹/۲۰۵}
واللہ اعلم بالصواب
18نومبر 2018ء
10ربیع الاول1440ھ
تصحیح و تصویب مفتی محمد انس
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: