سوال:ایک بندہ اپنے علم کے مطابق قسم اٹھاتا ہے کہ میری بیوی فلاں جگہ نہیں گئی تھی،اگر گئی ہوتو اسےتین طلاق ،اس کےعلم میں یہی ہے کہ وہ نہیں گئی تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ گئی تھی تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ حوالہ کےساتھ جواب مطلوب ہے۔
سائل:ولید خان
﷽
الجواب حامدا ومصلیا
سوال میں ذکر کردہ صورت اگر واقعی درست ہے کہ سائل نے قسم کھائی کہ ”اگر میری بیوی فلاں جگہ گئی ہو تو اس کو تین طلاق “اور حقیقت میں وہ اس جگہ جا چکی تھی تو سائل کی بیوی پر تین طلاق واقع ہو گئیں،اورحرمت مغلظہ ثابت ہوگئی ، لہذا اب وہ بیوی اس پر حرام ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ آپس میں نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔
حلالہ شرعیہ کا مطلب یہ ہے کہ عدت طلاق گزرنے کے بعد عورت کا کسی مرد سے دو گواہوں کی موجودگی میں با قاعدہ نکاح ہو اور مرد اس سے مجامعت (ہم بستری)کرلے اور پھر اپنی مرضی سے عورت کو طلاق دیدے،یا وفات پا جائے اور اس کی بھی عدت گزر جائے،عدت گزرنے کے بعد اب پہلے شوہر کا اس سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
عام طور پر حلالہ کا جو یہ طریقہ رائج ہے کہ دوسرے شوہر کے ساتھ زبانی یہ معاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک بار مجامعت کے بعد طلاق دینی ہوگی ایسا حلالہ کرنا کرانا حرام ہے،اس سے بیوی پہلے شوہر کے لئے حلال تو ہو جاتی ہے لیکن سخت گناہ ملتا ہے،حدیث میں ایسا حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت آئی ہے۔
کما فی القرآن الکریم:
فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره۔
تفسير الجلالين (ص: 49)
{فإن طلقها} الزوج بعد الثنتين {فلا تحل له من بعد} بعد الطلقة الثالثة {حتى تنكح} تتزوج {زوجا غيره} ويطأها كما في الحديث رواه الشيخان۔
الفتاوى الهندية (1/ 473)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 132)
فإن أضافه(الطلاق)إلى الزمان الماضي ينظر: إن لم تكن المرأة في ملكه في ذلك الوقت لا يقع الطلاق، وإن كانت في ملكه يقع الطلاق للحال……….
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
محمد رفیق عفی عنہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
5ربیع الثانی 1441
3دسمبر 2019