پاکستان کو اپنے خوابوں کی منزل اور خیالوں کا دیس سمجھ کر اس کی طرف ہجرت کرنے والے جانے کتنے لٹے پٹے قافلے تھے جو گردوں کے ستم اور اجڑے ہوئے گھر دیکھ کر یہاں پہنچے لیکن ایک ٹھیک اسلامی حکومت کا نقشہ انھیں دکھائی نہ دیا گمنام قافلوں کے روپوش کارکنوں کو تو رہنے دیں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا حال سنیے جو تحریک پاکستان کے سرخیل حامی علماء میں سے تھے ان کے لہجے ان کی تحریر کے درد و کرب کی یہ سطریں پڑھیےوہ لکھتے ہیں:
“میرے استاد محترم اور پھوپھی زاد بھائی شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ اور چند عمائد کراچی نے یہ ارادہ کیا کہ پاکستان کے لیے اسلامی دستور کا ایک خاکہ مرتب کرکے حکومت کے سامنے رکھا جائے تاکہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنا ہے ، وہ جلد سے جلد بروئے کار آسکے اس تجویز کے لیے منجملہ چند علماء کے احقر کو بھی ہندوستان سے کراچی آنے کی دعوت دی گئی یکم مئی ١٩٤٨ء میری عمر میں عظیم انقلاب کا دن تھا ، جس میں وطن مالوف ، مرکز علوم دیوبند کو خیر باد کہہ کر پاکستان کا رخ کیا والدہ محترمہ اور اکثر اولاداور سب عزیزوں اور گھر بار کو چھوڑنے کا دل گداز منظر اور جس طرف جا رہا ہوں ، وہاں ایک غریب الوطن کی حیثیت سے وقت گذارنے کی مشکلات کے ساتھ ایک نئی اسلامی حکومت کا وجود اور اس میں دینی رجحانات کے بروئے کار آنے کی خوش کن امیدوں کے ملے جلے تصورات میں غلطاں یہاں آئے ہوئے اس وقت پندرہ سال پورے ہوکر تین ماہ زیادہ ہو رہے ہیں اس پندرہ سال میں کیا کیا اور کیا دیکھا؟ اس کی سرگزشت بہت طویل ہے یہ مقام اس کے لکھنے کا نہیں ، جن مقاصد کے لیے پاکستان محبوب و مطلوب تھا اور اس کے لیے سب کچھ قربان کیا تھا ، حکومتوں کے انقلابات نے ان کی حیثیت ایک لذیذ خواب سے زیادہ باقی نہ چھوڑی
بلبل ہمہ تن خون شد و گل شد ہمہ تن چاک
اے واے بہارے اگر این ست بہارے
حکومت کے راستے سے کسی دینی انقلاب اور نمایاں اصلاح کی امیدیں خواب و خیال ہوتی جاتی ہیں ، تاہم عام مسلمانوں میں دینی بیداری اور امور دین کا احساس بحمداللہ ابھی تک سرمایہ زندگی بنا ہوا ہے ، ان میں صلاح و تقوی کی بحمداللہ خاصی تعداد موجود ہے ، اسی احساس نے یہاں دینی خدمتوں کی راہیں کھولی ہوئی ہیں( معارف القران جلد اول صفحہ ٦٣)
یہ غالبا ان ہی مخلص مسلمانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ بے دین حکمرانوں بدعنوان سیاست دانوں اور غیر ذمہ دار بیورو کریسی کے باوجود پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا دین کی نشر و اشاعت اور اسلامی علوم کی مرکزیت کا اعزاز اسے حاصل ہوا جہاد کا جذبہ یہیں سے زندہ ہوا اور اسلام کی پناہ گاہ کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا جو مسلمان زعماء پاکستان بنانے کے مخالف تھے پاکستان بن جانے کے بعد اس کی حفاظت کو وہ ضروری خیال کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ مسجد بنانے کی جگہ میں اختلاف تھا ، اب جب مسجد بن گئی اس کی حفاظت ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے بلاشبہ پاکستان کی ٥٦ سالہ تاریخ میں آنسو بھی ہیں اور مسکراہٹیں بھی غم بھی ہیں اور مسرتیں بھی اور ایسے ان گنت درد مند پاکستانی مسلمانوں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی ، جن کی آنکھوں میں پاکستان کے ہر غم پر آنسو اور جن کے دل میں پاکستان کی ہر مسرت پر آس کا چراغ جھلملانے لگتا ہے ان شاءاللہ ایک دن ان کی تمنا بھی بر آئے گی اور ادھورا نقشہ تکمیل کی منزل پالے گا!
( ابن الحسن عباسی کے کالم ادھورا نقشہ 2003سے اقتباس)