اکیڈمک رائٹنگ (دوسروں کے لیے مضمون لکھ کر اجرت لینے) کا حکم

میں ایک انجینئر ہوں۔ میرے والد کے مرنے بعد میں نے والدہ کی دیکھ بھال کی وجہ جاب چھوڑ دی اور میں عالمہ کے دوسرے سال میں ہوں تو مدرسے کے ساتھ آفس جاب کرنا مشکل تھی۔ پھر میں نے آن لائن کام شروع کیا۔ میں مضامین لکھتی ہوں۔ پھر مجھے تعلیمی تحریری کام کے لیے ایک پیشکش مل گئی، جس میں تنخواہ اچھی تھی۔ اسے اکیڈمک رائیٹنگ کہتے ہیں۔ کمپنی بیرون ملک طلبا یا کلائنٹ سے کام لیتی ہے۔ زیادہ تر طلباء اور کلائنٹ کی رپورٹوں پر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہم کسی تیسرے رفیق کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہمیں عام طور پر پتہ نہیں ہوتا کہ ہم طالب علم یا استاد کس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس سے حاصل ہونے کمائی جائز ہے یا نہیں۔؟ کیونکہ یونیورسٹی نہیں جانتی کہ طلباء اپنی رپورٹس خود کر رہے ہیں یا نہیں، تو کیا دھوکہ دہی تو نہیں آئے گا۔ لیکن آخر میں ہم اس ملازمت کے کام کو تیسرے فریق کے طور پر کرتے ہیں۔ میں الجھن میں ہوں میری مدد فرمادیں۔
الجواب حامداومصلیا
مسؤلہ (اکیڈمک رائیٹنگ) کا پیشہ اختیار کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ لکھے جانے والے مضامین جائز ہوں۔ لیکن اگر آپ کو یقین یا غالب گمان ہو کہ آپ کو لکھنے کے لیے دیئے جانے والے مضامین طلبا یا ایسے حضرات کے ہیں جن پر ان مضامین کو خود تحریر کرنا لازم تھا، مگر وہ آپ کے ذریعے ان مضامین کو لکھوا کر اس کو اپنی طرف منسوب کرکے آگے کہیں پیش کریں گے تو یہ دھوکہ ہے۔ ایسے لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب لازم ہے۔ نیز ایسی صورت میں اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی کراہت سے خالی نہ ہوگی۔ اور اگر یقین سے معلوم ہوجائے کہ دوسرے کا کام اپنا ظاہر کرکے پیش کریں گے اور تعلیمی سند لیں گے۔ تو یہ دھوکہ دہی میں تعاون ہے، جس کی شریعت میں اجازت نہیں۔
(جواہر الفقہ: جلد٧)
(ماخذ التبویب: ٥٧/١٦٠٣)
(تفسیر الالوسی: ٤/٣٧٠)
واللہ اعلم

مفتی محمود اشرفجامعہ دارالعلوم کراچی

:عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فاءل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/945373785831867/

اپنا تبصرہ بھیجیں