سوال : آیت کریمہ ”لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من“ الظالمین(سورہ انبیاء آیت ۸۷)کا 20لوگوں کو بھیجنے پر اچھی خبر کاملنا اور انکار کرنے پر 9سال کی بدقسمتی کا کہاجانا اور اسطرح کے میسجز کرنےاور اسکو درست ماننے کا کیاحکم ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب:
واضح رہے کہ مشکلات کے حل کے لیے کوئی بھی مسلمان آیت کریمہ کا ورد کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور نجات دیں گے۔تاہم آیتِ کریمہ کے وظیفے کے لیے کسی روایت میں کوئی خاص تعداد مقرر نہیں کی گئی، بزرگوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں مختلف حاجات کے لیے مختلف تعداد بیان کی ہے،
اگر کوئی اس کی تعداد متعین کرکے پھر اس پر ثواب وعذاب مرتب کرکے اس کے میسجز بھیجتا ہے تو یہ طریقہ درست نہیں ہے؛کیوں کہ اس سے لوگ تشویش کا شکار ہوتے ہیں اور کم علمی کی بنا پر پریشان ہوجاتے ہیں،لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
====================
حوالہ جات:
1. ”عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه عن النبي صلی الله علیه وسلم قال: دعوة ذي النون إذ هو في بطن الحوت ”لا إِلٰهَ إِلاَّ أنتَ سُبحانَک إني کنتُ مِنَ الظَّالمِین“ لم یدع بها مسلم ربه في شيء قط إلا استجاب له”․
(روح المعانی : 9/81)
ترجمہ: سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
ذوالنون ( یعنی یونس علیہ السلام ) کی وہ دعاء جو انہوں نے مچهلی کی پیٹ کے اندر مانگی تھی (یعنی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ) جو مسلمان اپنے کسی بهی مقصد کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعاء کرے گا اللہ تعالی اس دعاء کو قبول فرماویں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
30دسمبر 2021
25جمادی الاولی 1443