آثارصحابہ کا معنی:
صحابہ کرام کے اقوال وافعال کو آثار صحابہ کہتے ہیں۔
آثار صحابہ سے استدلال:
آثارصحابہ سےاستدلال درست ہے یا نہیں؟ یہ ایک معرکۃ الآرابحث ہے ، یہاں صرف حنفی نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے:
- قرآنی آیت اورحدیث مرفوع مقدم ہے حدیث موقوف سے۔ (مختصرالتحریر شرح الکوکب المنیر:4/652)
(مرفوع وہ حدیث جو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ہو ۔ موقوف وہ حدیث جو نبی کریمﷺ کی طرف منسوب نہ ہو بلکہ کسی صحابی کا قول وفعل ہو)
- آثار صحابہ ان الفاظ کے ساتھ ہوں کہ امرنا، نھینا، من السنۃ یرفعہ ینمیہ یبلغہ روایۃ ،كانوا يفعلون كذا في عهد النبي صلى الله عليه وسلّم تو یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہوں گے اور حدیث مرفوع کی طرح حجت ہوں گے۔ (التقريب والتيسير للنووي:1/33)
- ان کے علاوہ دوسرے الفاظ ہوں، مثلا: كنا نقول یا نفعل كذا تویہ مرفوع نہیں، بلکہ موقوف کے حکم میں ہوں گے۔ (رسوم التحدیث فی علوم الحدیث:1/65)
- صحابی کوئی ایسی بات ارشاد فرمائیں جو ذاتی رائے اوراجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ، جیسے: قیامت کی علامات، جنت جہنم کے احوال، پیشین گوئیاں، رکعتوں کی تعداد، رکوع سجدوں کی تعداد، زکوۃ کی مقدار وغیرہ تو وہ بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہوگی اور حجت ہوگی۔ (النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي: 1 / 412)
- صحابی کوئی ایسی بات ارشاد فرمائیں جو اجتہاد اور رائے سے کہی جاسکتی ہے تو وہ حدیث موقوف کے حکم میں ہوگی۔پھر اس کی دوصورتیں ہیں :
ایک یہ کہ وہ فتوی مشہور ہو
دوسرا یہ کہ وہ فتوی مشہور نہ ہو۔
اگر فتوی مشہور ہو تو اس کی یہ صورتیں ہیں:
(الف) فتوی مشہور ہواور دیگر صحابہ اس سے اتفاق کرلیں تو یہ اجماع صحابہ ہے اور بالاتفاق حجت ہے۔
(ب) فتوی مشہور ہو اور کسی صحابی سے اس کے خلاف بات منقول نہ ہو تو یہ اجماع سکوتی (خاموش اتفاق) ہے جو کہ حجت ظنیہ ہے۔
(حجت ظنیہ ایک شرعی اصطلاح ہے ۔حجت کا مطلب دلیل اور ثبوت ۔قطعی حجت پہلے اور سب سے قوی درجے کی دلیل کو کہتے ہیں، جبکہ حجت ظنیہ دوسرے درجے کا ثبوت شمار ہوتا ہے)
(ج) فتوی مشہور ہواور آپس میں اختلاف ہوا ہو اس صورت میں ایک صحابی کا موقف دوسرےپر حجت نہیں کیوں کہ سارے صحابہ مجتہد کے حکم میں ہیں۔بعد والے مجتہدکے لیے لازمی ہے کہ وہ ان کے اقوال میں سے ہی کسی قول پر اپنی اجتہادی بصیرت کے مطابق فتوی دے، ان کے اقوال سے باہر کوئی نیا موقف نہ اپنائے!
دوسری صورت کہ صحابی کا فتوی مشہور نہ ہوا ہو اس کےحکم میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف رائے ہے۔ فقہائے احناف میں امام کرخی کو چھوڑ کر بقیہ سب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ایسے فتاوی بھی معتبر اورحجت ہیں،ہاں! اگر وہ اپنے سے اعلی کسی صریح نص (قرآن وسنت کے صاف صاف لفظوں )سے ٹکرارہے ہوں تو نص کو ترجیح حاصل ہوگی۔
المعتصر من شرح مختصر الأصول من علم الأصول (1 / 191):
وقد حكى العلائي إجماع التابعين على الاحتجاج بقول الصحابي فقال: (إن التابعين أجمعوا على اتباع الصحابة فيما ورد عنهم، والأخذ بقولهم، والفتيا به، من غير نكير من أحد. وكانوا من أهل الاجتهاد أيضاً)
- کسی واقعےپر صحابہ کرام کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہی ان کا موقف ہے۔ یعنی صحابی کاسکوت موقوف حدیث کے حکم میں ہے۔
المعتصر من شرح مختصر الأصول من علم الأصول (1 / 186):
فروى الشيخان من عبادة بن الصامت – رضي الله عنه – أنه قال: (بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على أن نقوم أو نقول بالحق حيثما كنا لا نخاف في الله لومة لائم) ونحن نشهد بالله أنهم وفوا بهذه البيعة وقالوا بالحق وصدعوا به ولم تأخذهم في الله لومة لائم ولم يكتموا شيئاً منه مخافة سوط ولا عصاً ولا أمير ولا وال كما هو معلوم لمن تأمله من هديهم وسيرتهم، وعليه فتقرير الصحابي قول له.
- کوئی حدیث مرفوع عام ہو تو صحابہ کے قول وفعل سے اس میں تخصیص واستثناء ہوسکتا ہے، کیوں کہ صحابہ کرام حدیث کی منشاومراد کو ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔