لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے شرائط
پڑھیے اور جانیے کہ مخلوط تعلیم کب ناجائز ہوگا !
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً و مصلیاً
جہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں گی اور ان کی مکمل پابندی کی جائے گی تو وہاں خواتین کیلئے ڈاکٹری یا دیگر مباح علوم کی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے ورنہ جائز نہیں اور شرائط یہ ہیں :
(1)خواتین کی تعلیم گاہیں اور اسکول و کالج صرف اور صرف خواتین کیلئے مخصوص ہوں مردوں کے ساتھ خواتین کا آمنا سامنا میل جول بالکل نہ ہوتا ہو نیز مردوں کااندرونی عمل دخل بھی ہرگز نہ ہو۔
(2)ان تعلیم گاہوں تک خواتین کے آنے جانے کا پردہ کے ساتھ محفوظ انتظام ایسا ہو کہ کسی مرحلہ پر بھی فتنہ کا کوئی اندیشہ نہ ہو ۔
(3)تعلیم وتربیت کیلئے نیک کردار اور پاک دامن خواتین کا تقرر ہو ،اگر ایسی معلّمات نہ مل سکیں تو درجہءِمجبوری میں نیک اور صالح اور قابل ِ اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے جو پسِ پردہ خواتین کو تعلیم دیں ،لیکن ان کی بھی کڑی نگرانی کی جائے (3)۔(ملخص از کفایت المفتی ج2ص34)
(2)کالج گھر سے 48 میل یا اس سے زیادہ فاصلہ پر ہو تو سفر میں اور واپسی کے دوران شوہریا محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے ۔
چونکہ دورِ حاضر میں خواتین کی تعلیم کے سلسلہ میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے عموماً اس میں یہ شرطیں مفقود ہیں ،لڑکے اور لڑکیوں ،مردوں اور عورتوں کا کھلا اختلاط ہوتا ہے ، اس لئے ایسی بے حجابانہ اور بے باکانہ تعلیم شرعاً جائز نہیں۔( ماخذہ التبویب : ۶۷؍۶)
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [النور : 30 ، 31]
صحيح البخاري – (1 / 87)
عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي ﷺ قال لا تسافر (تسافر) المرأة ثلاثة أيام (ثلاثا-فوق ثلاثة أيام) إلا مع ذي محرم
صحيح مسلم – عبد الباقي – (2 / 975)
عن عبد الله بن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال * لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تسافر مسيرة ثلاث ليال إلا ومعها ذو محرم
صحيح مسلم – عبد الباقي – (3 / 1680)
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم * صنفان من أهل النار لم أرهما قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهن كأسنة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا
سنن الترمذي – (3 / 474)
روي عن النبي صلى الله عليه و سلم قال لا يخلون رجلا بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان
مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – بيروت – (2 / 493)
وعن علقمة بن أبي علقمة عن أمه قالت : دخلت حفصة بنت عبد الرحمن على عائشة وعليها خمار رقيق فشقته عائشة وكستها خمارا كثيفا . رواه مالك
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (7 / 2793)
(فَشَقَّتْهُ عَائِشَةُ) : أَيْ قَطَعَتْهُ نِصْفَيْنِ غَضَبًا عَلَيْهَا وَجَعَلَتْهُمَا مَنْدِيلَيْنِ، فَلَا يُرَدُّ أَنَّ فِي شَقِّهَا تَضْيِيعًا (وَكَسَتْهَا) : أَيْ أَلْبَسَتْهَا بَدَلَ الْخِمَارِ الرَّقِيقِ (خِمَارًا كَثِيفًا) : أَيْ غَلِيظًا خَشِنًا تَأْدِيبًا لَهَا وَتَرْبِيَةً بِآدَابِهَا الْمَأْخُوذَةِ مِنَ الْمُرَبِّي الْأَكْمَلِ فِي تَرْكِ الدُّنْيَا وَحُسْنِ مَلَابِسِهَا، وَيُحْتَمَلُ أَنَّ الْخِمَارَ كَانَ مِمَّا يَنْكَشِفُ مَا تَحْتَهَا مِنَ الْبَدَنِ وَالشَّعَرِ فَغَيَّرَتْهَا، وَاللَّهُ أَعْلَمُ. (رَوَاهُ مَالِكٌ)
حجة الله البالغة – (1 / 686)
اعلم أنه لما كان الرجال يهيجهم النظر إلى النساء على عشقهن والتوله بهن ، ويفعل بالنساء مثل ذلك ، وكان كثيرا ما يكون ذلك سببا لأن يبتغي قضاء الشهوة منهن على غير السنة الراشدة ، كإتباع من هي في عصمة غيره ، أو بلا نكاح ، أو غير اعتبار كفاءة – والذي شوهد في هذا الباب يغني عما سطر في الدفاتر – اقتضت الحكمة أن يسد هذا الباب
شرح فتح القدير – (1 / 343)
وتعلم المرأة من المرأة أحب من تعلمها من الأعمى