جب “اللّٰہ جل شانہ”کسی “خوش نصیب”کو “حج “کی” سعادت “نصیب کرے اور اسباب بھی مہیا ہوں تو پھر “ارادہ”کی تکمیل میں دیر نہیں کرنی چاہئے-شیطان ایسے مواقع پر”لغو خیالات” اور “بے محل ضروریات” دل میں جمع کردیتا ہے-۔ “نیت”
جب اس “مبارک سفر”پر نکلے تو نیت “خالص” اللّٰہ کی رضا” ہونی چاہئے-
“مسائل حج سیکھنا”
“حج کے مسائل معلوم کرنے کی سعی کرے-کیوں کہ مسائل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے”حاجی”کو پتہ بھی نہیں چلتا اور دم لازم آجاتا ہے-اس کے علاؤہ بھی بہت مسائل پیش آجاتے ہیں-تو حتی الامکان “مستند”علماء”کے پاس جا کر اور “اداروں” میں جا کر باقاعدہ “حج”کے احکام و مسائل” سیکھیں-
“توبہ” اپنے پچھلے “گناہوں”سے توبہ کریں- کسی کا مال”ظلم سے لے رکھا ہو تو اس کو واپس کریں
-کسی پر ظلم وزیادتی کی ہو تو”اس سے” معاف کرائے- جن لوگوں سے بے تکلفی کا رشتہ ہے ان سے”کہا سنا معاف کروائے”-اگر کسی کا کچھ “قرضہ”اپنے زمہ ہو تو اس کو ادا کرے یا “ادائیگی” کا کوئ انتظام کرے-اپنے پاس”کسی کی کوئ امانت ہو تو انکو واپس کرے یا کوئ مناسب متبادل”امانت رکھوانے والوں”کی رضا سے کردے-
“حلال مال”
“حج”کے لئے “حلال مال” کا بندوبست کرے-“حرام مال سے “حج” تو ہو جاتاہے لیکن “مقبول”نہیں ہوتا-
“عاشقانہ سفر”
جس طرح ایک”عاشق” “محبوب”کے “کوچے”کی طرف سفر کرتا ہے تو نہ اسے “گرمی سردی” کی پروا ہوتی ہے نہ کسی”راحت و تکلیف”کا خیال رہتا ہے٫نہ کسی کے”طعنے تشنے”نہ “برا بھلا کہنے کی “آواز”آتی ہے اور نہ بھوک و پیاس”کا “احساس” ستاتا ہے-اسی طرح کا ایک”حج” کا واقعہ”حکیم الامت”حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے”کہ “ہندوستان”میں ایک “قاری صاحب” تھے- انہیں “حج” کا بہت شوق تھا- لیکن زادراہ پاس نہیں تھا-جب تڑپ حد سے زیادہ بڑھ گئ تو ایک دن کچھ پیسے پاس تھے انکے “بھنے ہوئے چنے”لئےاور تھیلے میں ڈال کر”اللّٰہ”کا نام لے کر چل پڑے-راستے میں جہاں رات ہوتی قیام کرتے-چارپائیاں بن لیتے تھے بس اس طرح کچھ رقم مل جاتی تو اس سے کچھ اور آگے چلے جاتے- یونہی ایک دن ممبئ پہنچ گئے- بندرگاہ پہنچے تو ایک جہاز کھڑا تھا جو “جدہ” جا رہا تھا-کپتان سے کہا مجھے”جدہ جانا ہے پیسے پاس نہیں ہیں لہذا آپ جہاز پر کوئ کام میرے سپرد کردیں٫کرایہ کے بدلے کام کردونگا-
کپتان نے اندازہ لگالیا کہ یہ” مسلمان “ہے ٹالنے کے لئے کہ دیا”لیٹرین”صاف کرنے پڑیں گے-” قاری صاحب” نے منظور کر لیا-کپتان نے کہا پہلے مجھے “امتحان”دو اور 100کلو”کی بوری اٹھوائ-“قاری صاحب تھے تو دھان پان سے لیکن “حج” کی سچی لگن تھی-“اللہ تعالیٰ”سے دعا کی”یا اللّٰہ! میں تو کمزور ہوں٫تو ہی کامیاب کرادے- پھر”بسم اللّٰہ کہکر بوری اٹھائ اور چل دیئے- کپتان حیران تو ہوا لیکن انکو جہاز میں سوار کر لیا-
“قاری صاحب” نے اپنی ڈیوٹی اس طرح سنبھالی کہ دو جوڑے کپڑے کی پاس تھے- ان میں سے ایک “لیٹرین” کی صفائ کے وقت پہنتے اور دوسرا نہا دھو کے پانچوں “نمازوں”اور تلاوتِ قرآن پاک”کے وقت پہنتے-
“کپتان صاحب”تھے تو انگریز لیکن “قاری صاحب”سے بہت متاثر تھے-اور”قاری صاحب” کے دن رات کے معمول سے اور زیادہ متاثر ہوئے- آخر ایک دن ” قاری صاحب”نماز میں مشغول تھے تو وہ انکے پاس آکر کھڑے ہوگئے- جب “قاری صاحب”نے سلام پھیرا تو پوجھا یہ کیا پڑھتے ہو؟ “قاری صاحب” نے بتایا کہ یہ”قرآن کریم” ہے جو “اللّٰہ تعالٰی”کا کلام ہے-اور ہمارے “پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”جو “اللّٰہ کے “آخری نبی ہیں ان پر “نازل”ہوئ ہے- “انگریز”کے دل میں ہدایت اتر چکی تھی-اسنے کہا “یہ مجھے بھی پڑھاؤ” قاری صاحب”نے اس کو غسل کرنے کا کہا اور طریقہ بھی بتایا-کیونکہ ” “لا یمسہ الا المطھرون”
پھر”قاری صاحب”نے اسکو “کلمہ طیبہ”لا الہ الااللہ محمد رسول اللّٰہ” پڑھادیا( سبحان اللہ)
کپتان کے ساتھیوں نے کہا”کپتان صاحب”اس نے تو تمہیں” مسلمان” کر دیا ہے-لیکن کپتان کے دل میں ایمان اتر چکا تھا-
القصہ یہ کہ وہ کپتان پختہ “مسلمان”ہو گیا-اور اس نے بھی “قاری صاحب”کے ساتھ حج کیا- یہ ہے “سچا عشق اور سچا عاشق”جس نے نہ صرف اس “عاشق” کا بلکہ “انگریز”کا بھی کام بنا دیا-
“لبیک اللہم لبیک٫ لبیک لا شریک لک لبیک (آمین)
حوالہ: فضائل حج
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان
الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف (آمین)