عید کے یہ رنگ
پاکستان میں عید الفطر اور خاص طورپر عید قرباں جس سج دھج سے منائی جاتی ہے اسے دیکھ کر واقعی اپنی آزادی کا احساس ہوتا ہے۔ پاکستان میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ لوگ اپنی پسند کے بکرے ، دبنے، گائے یاقربانی کے دوسرے جانور خرید کر اپنے گھر لاتے ہیں۔ انہیں ہار پہنا کر اور بنا سنوار کر محلے بھر میں گھمایا جاتا ہے اور عید کے روز اپنے گھر میں یا پھر گلی میں اس کی قربانی کی جاتی ہے۔برطانیہ یا امریکہ میں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ یہاں نہ تو قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں اور نہ ہی انہیں خرید کر گھر میں رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ گھر یا محلے میں قربانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان ممالک میں قربانی کے فریضے کی ادائیگی مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔
برطانیہ، امریکا وغیرہ ایسے ممالک میں جہاں آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کے تحفظ کا بظاہر بہت خیال رکھا جاتا ہے اور جہاں مسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہیں لیکن وہاں عیدیں اس جوش و جذبے اور دھوم دھام سے نہیں منائی جا سکتیں جیسا کہ پاکستان میں۔ یورپ کے دیگر ایسے ممالک جہاں مسلمان کم تعداد میں ہیں، وہاں تو عید منانا اور بھی مشکل کام ہے۔
برطانیہ میں قربانی کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ وہاں بعض مخصوص علاقے ہیں جہاں مخصوص سینٹروں میں آپ جانور خرید کر ”جمع” کروا دیتے ہیں۔ اس قربانی مرکز میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور اسی جگہ سے آپ پیک شدہ گوشت حاصل کر لیتے ہیں۔ کھال آپ کو نہیں ملتی لہٰذا آپ کسی جگہ عطیہ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ کھلے عام گوشت بھی تقسیم نہیں کر سکتے کیوں کہ کھالوں، جانوروں کی آلائشیں اور گوشت کی منتقلی کا وہاں طے شدہ طریقہ کار ہے۔ کھالیں تو وہ کمپنیاں لیتی ہیں جن کے پاس حکومت کی جانب سے دیا گیا اجازت نامہ ہوتاہے اور وہ چمڑے کے کاروبار ہی سے وابستہ ہوتی ہیں۔ جانوروں کی آلائشیں بلدیاتی اداروں کے ذریعے ٹھکانے لگائی جاتی ہے جبکہ گوشت کو منتقل کرنے کےلیے وہاں خاص حفاظتی انتظامات، مخصوص گاڑیاں اور مخصوص ادارہ ہے۔ آپ اپنے گھر میں قربانی کا جانور رکھ سکتے ہیں اور نہ ذبح کر سکتے ہیں کیوں کہ جانوروں کے حقوق کی نگہداشت پر مامور سیکورٹی ادارہ آپ کی جان کو آجائے گا۔ برطانیہ میں جانور کو مارنا قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ مسلمانوں کو جن علاقوں میں قربانی کے مراکز بنانے کی اجازت ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مقامی ایم پی اے مسلمان ہوتا ہے یا اسے مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر بہت سے علاقوں میں قربانی مراکز بھی قائم نہیں کیے جا سکتے۔ ان علاقوں میں رہنے والے مسلمان قربانی کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ حلال ذبیحہ خانوں میں جا کر قربانی کے جانور کی رقم جمع کرادیتے ہیں۔ ذبیحہ خانے والے ان کی طرف سے جانور قربانی کرکے پیک شدہ گوشت قربانی کرنے والے کے سپرد کردیتے ہیں یوں وہ گوشت اٹھا کر ٹھنڈے ٹھنڈے گھر آجاتا ہے۔ برطانیہ میں ذبیحہ خانوں کی سہولت ایک تو مسلمانوں کی بنا پر ہے دوسرے یہودی بھی ان کے حامی ہیں کیوں کہ وہ بھی ذبح شدہ جانور کا گوشت کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مسلمان قربانی کی رقم پاکستان یا ایسے ہی کسی دوسرے ملک بھجوا کر اجتماعی قربانی میں شریک ہوجاتے ہیں جہاں مختلف دینی ، تعلیمی فلاحی ادارے آزادی سے کام کر رہے ہیں۔
پردیس میں عیدیں گزارنا کس قدر مشکل کام ہے اس کا اندازہ پاکستان میں اپنے گھر، رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں کے درمیان رہ کر نہیں ہوسکتا۔ اپنے وطن میں عید کی خوشیاں لوٹنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ پاکستان میں لوگ گھروں میں جانور لا کر پالتے ہیں۔ بچے انہیں سجانے، سنوارنے اور گلیوں میں گھماتے ہیں۔ جانوروں کا خیال رکھنے میں جو لطف اور خوشی ملتی ہے وہ بڑی انوکھی سی ہوتی ہے پھر یہ احساس دل کو مزید تسکین دیتا ہے کہ اتنی چاہت سے خریدا ہوا یہ جانور اﷲ رب العزت کی رضا کی خاطر قربان ہونے جارہا ہے۔ پھر قربانی کے جانور کو اپنے سامنے یا اپنے ہاتھوں سے قربان کرنا ایک ایسا تجربہ ہوتا ہے جو خاص طور پر بچوں کو بہت دیر تک یاد رہتا ہے۔ اس طرح بچوں کی تربیت بھی ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کس طرح قربانی دینی چاہیے ۔ برطانیہ میں عید کا حال آپ نے ملاحظہ کر لیا۔ برطانیہ میں مسلمانوں کو قربانی کی جو محدود اجازت حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں مسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ خاص طور پر بریڈ فورڈ کو منی پاکستان کہا جاتا ہے لیکن یورپ کے جن شہروں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے وہاں یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ وہاں کے مسلمان عید کے موقع پر اپنے حصے کی رقم دیگر علاقوں میں کسی ادارہ یا اپنے گھروں میں بھجوا دیتے ہیں۔ امریکا کا حال بھی برطانیہ سے مختلف نہیں ہے۔
قربانی کے لیے آپ کو یا تو کسی ایسے گروسری اسٹور پر آرڈر بک کرانا پڑتا ہے جہاں حلال گوشت فروخت ہوتا ہے یا پھر شہر سے دور کسی ذبیحہ خانے جاکر اپنی پسند کا جانور ذبح کرانا پڑتا ہے جو کہ ایک دشوار اور صبر آزما کام ہے۔ اکثر افراد عید سے قبل ہی اسٹور پر قربانی کے لیے اپنا آرڈر بک کرا دیتے ہیں اور عید کے روز انہیں ان کے قربانی کے جانور کے گوشت کے تیار شدہ پیکٹ مل جاتے ہیں۔