یہ سورت حضور نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کے بالکل آخری دور میں نازل ہوئی ہے ،علامہ ابوحیان فرماتے ہیں کہ اس کے کچھ حصے صلح حدیبیہ ، کچھ فتح مکہ اورکچھ حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئے تھے،اس زمانے میں اسلام کی دعوت جزیرۂ عرب کے طول وعرض میں اچھی طرح پھیل چکی تھی، دشمنان اسلام بڑی حد تک شکست کھاچکے تھے اورمدینہ منورہ میں آنحضرتﷺ کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست مستحکم ہوچکی تھی ،لہذا اس سورت میں مسلمانوں کے سماجی، سیاسی اورمعاشی مسائل سے متعلق بہت سی ہدایات دی گئی ہیں، سورت کا آغاز اس بنیادی حکم سے ہوا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے عہد وپیمان پورے کرنے چاہئیں،اس بنیادی حکم میں اجمالی طور پر شریعت کے تمام احکام آگئے ہیں، چاہے وہ اللہ تعالی کے حقوق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حقوق سے متعلق ،اس ضمن میں یہ اصول بڑی تاکید کے ساتھ سمجھایاگیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی ہر معاملہ انصاف کے ساتھ ہونا چاہئے ،یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ دشمنان اسلام کو اب اسلام کی پیش قدمی روکنے سے مایوسی ہوچکی ہے اوراللہ نے اپنا دین مکمل فرمادیا ہے
* اسی سورت میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ کس قسم کی غذائیں حلال ہیں اورکس قسم کی حرام
* اسی سلسلے میں شکار کے احکام بھی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں
* اہل کتاب کے ذبیحے اور ان کی عورتوں سے نکاح کے احکام کا بیان آیا ہے
* چوری اور ڈاکے کی شرعی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں
* کسی انسان کو ناحق قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے
* شراب اورجوے کو صریح الفاظ میں حرام قرار دیاگیا ہے
* وضو اور تیمم کا طریقہ بتایاگیا ہے
* یہودیوں اور عیسائیوں نے کس طرح اللہ تعالی سے کئے ہوئے عہد توڑا، اس کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔
“مائدہ”عربی میں دستر خوان کو کہتے ہیں اس سورت کی آیت نمبر ۱۱۴ میں واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے ان کے متبعین نے یہ دعا کرنے کی فرمائش کی تھی کہ اللہ تعالی ان کے لئے آسمانی غذاؤں کے ساتھ دستر خوان نازل فرمائے، اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام مائدہ یعنی دسترخوان رکھاگیا ہے۔