رجوع الی القرآن کی ضرورت:
شیخ الہند مولانا محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ کو انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی کی کوششیں کرنے والوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کو جب ان کے جرم حق کی پاداش میں مالٹا کی سلاخوں کی نذر کیا گیا توکال کوٹھڑی کی تنہائیوں میں انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے موجودہ زوال کے دو بڑے اسباب ہیں:
۱…… قرآن سے دوری
۲…… مسلمانوں کے آپس کے اختلافات و تنازعات:
شیخ الہند رحمہ اللہ ڈھائی سال مالٹا میں قید رہے۔ ڈھائی سال بعد جب رہائی ملی تو انہوں نے اپنے مریدین اور جانثار ساتھیوں کو انہیں دو باتوں کی تلقین کی کہ مسلمانوں کو قرآن کریم کی طرف واپس لایا جائے۔ قرآنی تعلیمات لوگوں کے دلوں میں راسخ کی جائیں اور آپس کے اختلافات و تنازعات کو دور کرنے کی کوششیں تیز سے تیز کر دی جائیں۔ شیخ الہند رحمہ اللہ نے اس سلسلے کا آغاز کرتے ہوئے خود بھی قرآن کریم کا مکمل ترجمہ اور شروع کے چار پاروں کی مختصر تفسیر بھی لکھی۔ لیکن یہ وقت آپ کے ضعف اور آخری عمر کا تھا۔ زندگی نے ساتھ نہ دیا اور آپ وفات پا گئے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے نظریے اور سوچ کو آپ کے شاگردوں نے پروان چڑھایا۔ درس قرآن کے حلقے مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے اور قرآن کریم کی کئی تفاسیر آپ کے شاگردوں نے لکھی۔
قرآن مجید کی تاثیر:
درحقیقت قرآن ایک ایسا پر اثر کلام ہے جو دلوں کا تزکیہ کرتا ہے۔ بندے کا رشتہ مخلوق اور اسباب سے کاٹ کر اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے۔ خدا ترسی اور فکر آخرت پیدا کرتا ہے۔ شرکیہ رسوم و رواج اور فاسد عقائدو نظریات کی اصلاح کرتا ہے۔ بلند اخلاق اور نیک اعمال و اطوار پر ابھارتا ہے۔ اس کے علاوہ دین کے مختلف النوع احکام کی بنیادوں، دین کے اصل مقاصد اور قوانین الہیہ سے پردہ بھی اٹھاتا ہے۔
مسلمان جب کلام الٰہی سے براہ راست آگاہ ہوتا ہے تو نتیجتاً اس کے علوم اس کے دل میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ پکا مؤحد بن جاتا ہے۔ شرکیہ اعمال و رسوم سے بیزاری ظاہر کرتا ہے۔ احساس زیاں، ایمانی غیرت، اور خدا خوفی کی صفات اس کے دل میں جڑ پکڑ جاتی ہیں۔ وہ ایک ہمدرد، با اخلاق اور مہذب شخصیت کا روپ پیش کرتا ہے اور افتراق و انتشار اور فرقہ وارانہ سوچ کو مسلمان قبیلے کے لیے زہر قاتل سمجھتا ہے۔
قرآن فہمی کے نتائج:
قرآنی علوم سے واقف کار مسلمان کبھی مشرکانہ اور جاہلانہ خیالات کا شکار نہیں ہوگا۔ وہ ایک کٹر مسلمان ہونے کے ناطے کبھی دوسرا مذہب اختیار نہیں کرے گا۔ ایمانی غیرت و حمیت کے باعث کبھی دشمنوں کا آلہئ کار نہیں بنے گا۔ بلکہ جذبہ جہاد حاصل ہونے کی وجہ سے دشمن کے لیے سخت حریف ثابت ہوگا۔ ہمدردی، ایثار اور اعلیٰ اخلاقی صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے جہاں وہ غیر مسلموں کو متاثر کرسکے گا وہاں خود مسلم سوسائٹی کے لیے بھی وہ ایک درد دل رکھنے والا، مفید اور فعال فرد ثابت ہوگا۔ قرآن فہمی کے عام اور شائع ہونے سے ایسے لوگوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور ایک وقت آئے گا جب مسلمانوں کو منظم و مہذب معاشرہ کے ساتھ ساتھ، باغیرت، بہادر اور متاثر کن افراد پر مشتمل ایک اعلیٰ عسکری اور فوجی قوت بھی حاصل ہوجائے گی۔
محنت کی ضرورت:
لیکن ذرا ٹھہریے! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ درس قرآن اور قرآن فہمی کی اس تحریک سے یہ نتائج حاصل کرنا دشوار عمل ہے۔ یقین جانیے یہ نتائج حاصل کرنا اتنا دشوار نہیں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔ بس مدرسین کو تھوڑی محنت کی
ضرورت ہے ظاہر ہے قرآن کریم کی طرف رجوع سے یہ تمام نتائج ومقاصد اسی وقت کماحقہ حاصل کیے جا سکتے ہیں جب قرآن کریم کا درس دینے اور اشاعت دین کا جذبہ رکھنے والے خود قرآن کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔ انھیں قرآن کریم کا فہم حاصل ہو۔ قرآن مجید کے علوم و معارف نے جنہیں متاثر کیا ہو۔جو خود غیرت ایمانی اور دینی حمیت کے جذبے سے سرشار ہوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار ان کے رگ و پے میں رچ بس گئے ہوں۔
کیونکہ تفہیم وہی کراسکتا ہے جسے خود فہم حاصل ہو۔ تاثیر وہی پیدا کرسکتا ہے جو خود متاثر ہوا ہو اور خود احتسابی، دردِ دل اور احساس ذمہ داری وہ ہی پیدا کرسکتا ہے جو خود بھی جگر میں مسلمانوں کا غم اور کڑھن لیے پھرتا ہو۔
سیرت سے مثال:
ذرا سیرت نبوی w پر ایک نظر ڈالیے! حضور نبیئ معصومw نے عرب کے جاہلانہ اور فرسودہ نظام کو قرآن کریم کی تعلیمات سے ہی شکست و ریخت سے دوچار کیا تھا۔ قرآن کے نظام اور قرآنی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر ہی حضور w نے صحابہ کرام کے دلوں کا تزکیہ کیا، ان میں باہمی اتفاق و اتحاد پیدا کیا اور مسلم معاشرے کو دنیا کے سب سے مثالی اور آئیڈیل معاشرے میں تبدیل کردیا۔ پھر کیا ہوا؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان اعلیٰ اقدار سے موصوف ہونے کے بعد ہی صحابہ کرام نے اگلے مرحلے میں نصف سے زائد کرہ ارض پر فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور آئندہ کے لیے یہی نظام فتوحات مسلسل کا سبب اور باعث قرار پایا
Load/Hide Comments