اس وقت عالم اسلام جن دل سوز، پرآشوب، صبر آزما اور کٹھن مراحل سے گزر رہا ہے ہر صاحب درد ان سے آزردہ اور کبیدہ خاطر نظر آتا ہے اسلام کے قلب و جگر پر جس قدر، جس تیزی اور جس منصوبہ بندی سے حملے ہورہے ہیں تاریخ شاید اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہو۔ بزم اسلام جس قدر خارجی و داخلی فتنوں کی شکار موجودہ دور میں ہے شاید اس سے پہلے نہ ہوئی ہو۔ قبلہ اول صہیونیوں کے پنجہ Êستبداد میں ہے تو حرمین شریفین طاغوتی قوتوں کے نرغے میں ہیں۔ دجال کی قوم یہود وسیع ترین اسرائیل کے منصوبے کے تحت خیبر اور مدینہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ شام، مصر، فلسطین، عراق، چیچنیا، افغانستان، کشمیر، برما سلگ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے اموال لٹ چکے ہیں۔ ہماری ماو¿ں بہنوں، بیٹیوں کی عصمتیں تار تار ہورہی ہیں۔ بھارت برطانیہ، تھائی لینڈ غرض مشرق و مغرب میں اگر کوئی قوم اس وقت قحط، خوف، ذلت و پستی، ظلم و بربریت اور غارتگری کی شکار ہے تو وہ مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والی قوم مسلمان ہے۔یہ تو عالم اسلام پر بیرونی اور خارجی فتنوں کا سرسری خاکہ ہے۔
جبکہ دوسری طرف مذہبی گروہ بندیاں، فرقہ واریت، قومیت اور عصبیت کے بدبودار نعرے، الحادوز ندقہ، مغرب کے افکار سے مرعوبیت، بے پردگی، فحاشی اور عریانیت کا سیلاب یہ وہ داخلی اور اندرونی فتنے ہیں جو قوم و ملت کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
مسلم امہ پرآئے ان حالات و مصائب کے پیچھے یقینا کچھ اسباب ہیں وہ اسباب کیا ہیں؟ ہم اپنے طور پر انہیں آشکارا کرنے کی کوشش کریں گے۔
۱…. بدعملی اور ایمان سے دوری:
اﷲ Jنے قرآن کریم میں خلافت اور زمین پر حاکمیت کی حامل قوم کی ایک بڑی صفت ایمان، اعمال صالحہ اور شرک سے بیزاری بیان فرمائی ہے۔ (سورہ نور: ۵۵)
اور خدا کا قانون ہے کہ ”اﷲ نہیں بدلتا کسی قوم کی حالت کو جب تک وہ نہ بدلیں اﷲ کے ساتھ اپنی روش کو۔ (الرعد: ۱۱)
ہم نے اﷲ کے ساتھ اپنی روش کو بدلا تو بے ایمانی، بدعملی اور مشرکانہ رسوم نے ہم سے وہ مرتبہ، خلافت فی الارض کا واپس لے لیا۔ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ دیانت داری سے کاروبار کریں۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ تمہارے اخلاق سب سے اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ ہم سے عہد لیا گیا تھا کہ اﷲ کے راستے میں مال خرچ کرو ورنہ زوال کا شکار ہوجاو¿ گے۔ ہمیں ظلم ، جھوٹ اور تفرقہ بازی سے منع کیا گیاتھا۔ خود احتسابی اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کا پابند بنایا گیا تھا۔ لیکن ہم نے رفتہ رفتہ، دھیمے دھیمے ان سارے حکموں کو توڑ ڈالا۔ احکام الٰہیہ سے روگردانی کا روگ پورے معاشرے میں سرایت کر گیا۔ ہم نے اﷲ کے حکموں کو اس بے دردی سے پامال کیا کہ منصف مزاج ناقدین بھی کہنے پر مجبور ہوگئے کہ: ”اسلام اچھا ہے، لیکن مسلمان اچھے نہیں۔“
۲….مذہبی گروہ بندیاں:
برطانوی سامراج کو اپنے دور حکومت میں کئی بار مسلمانوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریز کو خوف لگا رہا کہ مسلمانوں نے منظم ہوکر اپنی دفاعی قوت استعمال کی تو اس کے نتائج بہت خوف ناک ہوں گے۔ انہوں نے ایک ایسا منصوبہ تشکیل دیا جس سے مسلمانوں کی دفاعی قوت ہمیشہ کیلئے کمزور سے کمزور ہوجائے اور مسلمان ہندوستان میں دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔
ثبوت کے طور پر دو حوالے پیش خدمت ہیں:
۱: Sir John Malcolm لکھتا ہے:
”اس قدر وسیع ملک (متحدہ ہندوستان )میں ہماری غیر معمولی قسم کی حکومت کی حفاظت اس امر پر منحصر ہے کہ ہماری عمل داری میں جوبڑی جماعتیں ہیں ان کی عام تقسیم ہو اور پھر ہر جماعت کے ٹکڑے مختلف ذاتوں، فرقوں اور قوموں میں ہوں۔ جب تک یہ لوگ الگ الگ بٹے رہےں گے اس وقت تک کوئی بغاوت اٹھ کر ہماری قوم کے استحکام کو متزلزل نہیں کرسکے گی۔“
۲: لارڈ الفنٹسن گورنر بمبئی 14 مئی 1859 کو ایک یاداشت میں لکھتا ہے :
”نفاق ڈال کر حکومت رومیوں کا اصول تھا اور یہی اُصول ہمارا بھی ہونا چاہےے۔“
چنانچہ ہندوستان میں مذہب کے نام پر کچھ نئے نعرے وجود میں آئے۔ ایک نعرہ قرآن و حدیث اور اور ترک تقلید کا وجود میں آیا۔ ایک نعرہ مہدی کے ظہور اور انکار جہاد کا وجود میں آیا ایک نعرہ قرآن کے نام پر اتحاد امت کا وجود میں آیااور ایک نعرہ مقدس شخصیات کی گستاخی کا وجود میں آیا۔ یہ سارے نعرے ”پرکشش“ تھے اور اہم بات یہ کہ ”نئے“ بھی تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ قوم جس کو سامراج اور دشمن طاقتوں کے خلاف برسرپیکار ہونا چاہےے تھا وہ آپس میں دست و گریباں ہوگئی۔ ہزار دلائل دینے اور بار بار کی وضاحتوں کے باوجود کوئی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا۔ کاش! یہ غلط فہمیاں اسی وقت دور ہوجاتیں! کاش! دشمن کے خفیہ وار اور اس کے برے نتائج کا بروقت اندازہ ہوجاتا تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے۔
۳….مغربی افکار سے مرعوبیت:
مالداری، ٹھاٹھ باٹھ، حسن و خوبصورتی، تہذیب و اخلاق، تعلیم و ترقی، طاقت و اقتدار، عہدہ و منصب یہ سب وہ چیزیں جو لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ شکست خوردہ مسلمانوں نے جب یہ چیزیں مغربی قوموں میں دیکھیں تو کچھ نادان ان سے بہت زیادہ متاثر ہوگئے وہ ان جیسا لباس اور ان کی تہذیب و ثقافت اپنانے کو اپنی شکست کا بدلہ اور گویا اپنے زخموں کا مرہم سمجھنے لگے۔ وہ مغربی اقوام سے اس قدر مرعوب ہوگئے کہ ان کی غلط صحیح ہرفکر و نظر اور ہر قول و فعل کو قبول کرتے چلے گئے۔
اب ہوا یہ کہ مذہبی مسلمان تو فرقوں میں تقسیم ہو ہی گئے تھے۔ دنیا دار مسلمان بھی اسلامی نظریات سے کنارہ کش ہوکر مغرب کے گن گیت گانے لگے۔ یوں مسلمان، مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام کے سپاہی نہ رہے۔ وہ غیر شعوری طور پر دشمنوں کے آلہ کار بنتے چلے گئے۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ مسلمانوں کو جب آزادی ملی تو وہ آزادی صرف جسموں کی آزادی ثابت ہوئی ذہن اور دل و دماغ غلام کے غلام ہی رہے۔
۴….فکر و نظر میں جمود:
ہر عروج کو زوال ہے۔ چڑھتا سورج، ڈھلتے ڈھلتے، غروب ہوجاتا ہے۔ اٹھتی جوانی آہستہ آہستہ پڑھاپے کی گزر گاہوں سے ہوکر موت اور فنا کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہی حال قوموں کے عروج و زوال کا بھی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے اندر علمی انحطاط اور فکری جمود خطرناک حد تک سرایت کر گیا ۔وہ قوم جو علوم و فنون کی امام اور دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم کہلائی جاتی تھی مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اسے آہستہ آہستہ علمی زوال سے دوچار کردیا گیا۔ مغربی اقوام سائنسی اور علمی ترقی میں آگے بڑھ گئیں اور خود مغرب نے جن سے یہ علوم حاصل کےے تھے وہ صدیوں پیچھے رہ گئے۔
۵….قومیت اور عصبیت کا نعرہ:
اسلام، قومیت اور لسانیت کے نعروں کا سخت مخالف رہا ہے۔ انسانوں میں زبانوں کے فرق کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی ایک نعمت اور اپنی قدرت کا ایک کرشمہ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے جو چیز اﷲ کی نعمت ہو وہ زحمت اور نفرت کا باعث نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قوم قبیلے اور نسلی امتیازات کو اﷲ تعالیٰ نے انسانوں میں صرف ایک دوسرے کی پہچان اور تعارف کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ عزت و ذلت کا باعث ہرگز نہیں۔ خطبہ حجة الوداع میں نبی اکرم w نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرمایا: ”میری بات دھیان اور غور سے سنو! کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، اسی طرح کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت اور فوقیت کا معیار صرف اور صرف دین اور تقویٰ ہے اور کچھ نہیں۔“
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔“
ایک موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کے درمیان کچھ تلخی ہوئی۔ انصاری نے کہا یا للانصار اور مہاجر نے کہا یا للمھاجرین۔ نبی اکرمw نے جب اس طرح قومیت کے نعرے سنے تو فرمایا: ایسے نعروں سے دور رہو! یہ بدبودار نعرے ہیں۔“
نہایت افسوس کا مقام ہے! مسلمان پہلے ہی نظریاتی تفریق کا شکار تھے کہ ایسے میں تقسیم در تقسیم کا فارمولا اپناتے ہوئے قومیت، لسانیت اور سیاست کے نام سے مزید مسلمانوں کو علیحدہ اور تنہا کیا جارہا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ (226)سیاسی تنظیمیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ زبانوں کے جھگڑے ملک پاکستان میں ہوتے ہیں یہ سب چیزیں ہمیں لڑانے اور ہمیں مزید کمزور کرنے کے لےے ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے قیام پاکستان سے پہلے پیشین گوئی کردی تھی کہ اگر پاکستان معرض وجود میں آیا تو پچیس سالوں کے اندر وہ دو ٹکڑے ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ مختلف زبانوں پر مشتمل یہ ملک زیادہ عرصہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے گا۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قومیت اور عصبیت کے نعروں کا کس قدر گہرا اثر ہم مسلمانوں میں سرایت کر چکا ہے!
۶….کافر قوموں پر حد سے زیادہ اعتماد:
مسلم حکومتوں بالخصوص سلطنت مغلیہ کے زوال کا ایک سبب مغل بادشاہوں کا انگریزوں اور غیر مسلم اقوام پر حد سے زیادہ اعتماد بھی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں مسلمانوں کے خلاف کافر قوموں میں پائے جانے والے جذبات کی منظر کشی یوں کی ہے :
”اے ایمان والو! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو رازدار نہ بناو¿! یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ تم تکلیف اٹھاو¿۔ بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ عداوت ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتادی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو!“ (آل عمران: آیت ۸۱۱)
اور فرمایا:
”دیکھو! تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے….“
(آل عمران: آیت ۹۱۱)
ان واضح احکامات کے باوجود مسلمان حکمران، اغیار سے دوستی اور رازداری کا بھرم بھرتے رہے۔ انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا۔ انہیں تجارتی منصوبوں کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ ان کے ٹیکس معاف کیے گئے اور در پردہ جاری ان کی سازشوں اور مکر و فریب سے چشم پوشی کی جاتی رہی۔
دیکھا جائے تو عالم اسلام کا منظر نامہ اب بھی ویسا کا ویسا ہی ہے۔ امداد اور تعلیم کی آڑ میں مسلمانوں کو بے دین اور مرتد بنانے کے منصوبے بے نقاب ہورہے ہیں۔ سفارت اور تجارت کی آڑ میں دہشت گردی کے خفیہ وار ترتیب دےے جارہے ہیں۔ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں ہتھیاروں کی ترسیل، حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے، اتحاد کی کوششوں کو ناکارہ بنانے اور ملک بھر میں جاسوسی کا جال بچھانے تک یہ تمام ہتھکنڈے ہماری ناک کے نیچے آزمائے جارہے ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ ان سے دوستی کا راگ الاپتے ہوئے تھکتے نہیں۔ہمارا ان پر اعتماد مجروح نہیں ہوتا اور ہم پہلے سے زیادہ گرم جوشی کے ساتھ ان سے تعاون کا ہاتھ ملانے کے لےے تیار نظر آتے ہیں۔
۷….خانہ جنگیاں:
تاریخ کے نشیب و فراز سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ کسی قوم میں علوم و فنون اس وقت ترقی پاتے ہیں جب وہ امن و عافیت کی زندگی بسر کر رہی ہوتی ہے۔
اسلامی دور خلافت کو ہی دیکھ لیا جائے۔ جب مسلمان فوجیں مسلسل فتوحات کی جانب گامزن تھیں اور خلافت ایک مضبوط، پرامن اور مستحکم پوزیشن میں آگئی تھی تو یہی وہ دور تھا جب حدیث، فقہ، منطق، فلسفہ، سائنس اور دیگر تمام قدیم و جدید علوم و فنون میں مسلمانوں نے فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ علم و تحقیق کے دروازے وا ہوئے اور مسلمان دنیا کی سب سے متمدن اور مہذب قوم کہلائی۔ اس کے برعکس جب بھی مسلمانوں کی آپس میں خانہ جنگیاں ہوئیں یا بیرونی قوتیں اسلامی سرحدات پر حملہ آور ہوئیں، ہمیشہ مسلمانوںکے علمی ورثے کو گہرا نقصان پہنچا۔ علم و فن کی ترقی میں رکاوٹ اور ایک خلا سا پیدا ہوگیا۔ موجودہ دور میں امریکہ اور یورپین ممالک عرصہ دراز سے امن و سکون اور چین کی زندگی گزار رہے ہیں یہی ان کی ترقی کا بڑا راز بھی ہے۔ ورنہ جو قومیں جنگوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں وہ بھوک، افلاس اور جان و مال کے خوف میں مبتلا رہتیں اور اپنی بقا کی فکر میں تمام سرگرمیوں سے کٹ کر رہ جاتی ہیں۔
اسے اقتدار کی لالچ کہےے یا حقوق کی جنگ! اپنوں کی نادانی کہےے یا غیروں کی ستم ظریفی! بدقسمتی سے آج جہاں جہاں جنگوں کے نقشے ہیں وہ سب ہم مسلمانوں کے خلاف ہی سجائے گئے ہیں۔ ہر جگہ مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے۔ ہر جگہ مسلمان عورتیں ہی نوحہ کناں ہیں۔ بھوک اور قحط کا شکار اور روٹی کے انتظار میں مرنے والے بچے مسلمان کے ہی ہیں۔ قید خانوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہی صعوبتوں میں گرفتار ہیں۔ معیشت، دفاع، علم و ترقی غرض امن و استحکام اور خوش حالی کا ہر موقع مسلمانوں سے جان بوجھ کر چھینا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے اوپر ہر وقت جنگ کا خوف مسلط کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان کسی بھی میدان میں آگے نہ بڑھ سکیں اور وہ ہمیشہ پسماندہ، ناخواندہ اور غیر ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے دنیا میں محکوم اور مغلوب بن کر غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں۔
یہ ہیں چند وہ اسباب ، جن کے مدوجزر پر مسلم امہ کی عروج و زوال کی تاریخ وابستہ ہے ۔ اپنی گمشدہ متاع کے حصول کے لےے ہمارے لےے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔
Load/Hide Comments