اسلام نے عورت کو بہت حقوق دیئے ہیں۔ سب سے پہلے ہم عورت کے روحانی اور مذہبی حقوق کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ دینی حیثیت سے اسلام عورت کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔
مغربی دنیا میں اسلام کے حوالے سے جو غلط فہمیاں عام ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام میں جنت کا تصور صرف مرد کے لیے ہے عورت کے لیے نہیں۔ باالفاظ دیگر وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں بہشت صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے اور عورت جنت میں نہ جا سکے گی۔ یہ ایک صریح غلط فہمی ہے جس کی تردید قرآن کی درج ذیل آیات بخوبی کر دیتی ہیں۔
وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ اَوْ اُنْثََى وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُوْلَ۔ئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ وَلاَ يُظْلَمُونَ نَقِيرًا۔ (سورۃ نساء (4)، آیہ 124)
“اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے۔”
اسی سے ملتی جلتی بات قرآنِ مجید کی سورۃ نحل میں بھی کی گئی ہے۔ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے :
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ اَوْ اُنثَى وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً وَلَنَجْزِيَنَّھُمْ اَجْرَھُم بِاَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ۔ (سورۃ 16، آیہ 97)
“جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔”
مندرجہ بالا آیات سے بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں جنت کے حصول کے لیے جنس کی کوئی شرط موجود نہیں ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا اس نکتے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو فرسودہ (یا غیر منصفانہ) قرار دی جا سکتا ہے؟
اسی طرح مغربی ذرائع ابلاغ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ مذہب عورت میں روح کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتا۔ وہ یہ بات مطلق مذہب کے حوالے سے یوں کرتے ہیں کہ اس کا اطلاق اسلام پر بھی ہو جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ مسیحیوں کا ہے۔
سترھویں صدی میں روم میں ہونے والی کونسل کے اجلاس میں عیسائی علما اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ عورت میں روح موجود نہیں ہوتی۔ (اگرچہ بہ حیثیت مسلمان ہمیں یقین ہے کہ مسیحی علما کا یہ عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ مترجم)
جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس حوالے سے اسلام عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اس بات کی وضاحت قرآنِ مجید میں سورۃ نساء کی پہلی آیت سے بخوبی ہوتی ہے۔
يَا اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔ (سورۃ 4، آیہ 1)
” لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔”
اللہ سبحانہ و تعالٰی قرآن مجید کی سورۃ نحل میں فرماتا ہے :
وَاللّہُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ اَنفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ اَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَۃً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّہِ ھُمْ يَكْفُرُونَ۔ (سورۃ 16، آیہ 72)
“اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (یعنی بیویوں) سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے/ نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا، تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں۔”
اسی طرح سورۃ الشوریٰ میں ارشاد باری تعالٰی ہے :
فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ لَكُم مِّنْ اَنفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيہِ لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْءٌ وَھُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ۔ (سورۃ 42، آیہ 11)
” آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اسی نے تمہارے لئے تمہاری جنسوں سے جوڑے بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے اور تمہیں اسی (جوڑوں کی تدبیر) سے پھیلاتا ہے، اُس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔”
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ روحانی حوالے سے اسلام مرد اور عورت کی فطرت میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، اسلام کی تعلیمات میں جدت موجود ہے یا یہ فرسودہ ہیں؟ تخلیق آدم کے حوالے سے قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالٰی ہے۔
فَاِذَا سَوَّيْتُہُ وَنَفَخْتُ فِيہِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَہُ سَاجِدِينَ۔ (سورۃ ہجر (15)، آیہ 29)
“جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔”
اسی طرح کی بات قرآنِ مجید کی سورۃ سجدہ میں بھی کی گئی ہے۔ یہاں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے :
ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِيہِ مِن رُّوحِہِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ۔ (سورۃ 32، آیہ 9)
“پھر اس (میں اعضاء) کو درست کیا اور اس میں اپنی روحِ (حیات) پھونکی اور تمہارے لئے (رحمِ مادر ہی میں پہلے) کان اور (پھر) آنکھیں اور (پھر) دل و دماغ بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔”
ان آیات میں “روح پھونکنے” کے الفاظ سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اسلام “حلول” وغیرہ جیسے عقاید کی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں بات صرف اللہ تعالٰی کی قدرت اور اس تعلق کی ہو رہی ہے جو بندے کو اپنے خالق کے قریب تر کر دیتا ہے۔
اس حوالے سے مرد اور عورت کی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ یہ بات آدم اور حوا علیہما السلام دونوں کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔ دونوں اس لحاظ سے ہر طرح برابر ہیں۔
اسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ زمین پر اللہ تعالٰی نے انسان کو خلافت عطا کی ہے۔ نیابت و خلافت کا یہ اعزاز انسان کو بلا تفریق جنس دیا گیا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتا ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً۔ (سورۃ الاسرہ (17)، آیہ 70)
“اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔”
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں ذکر آدم علیہ السلام کی تمام اولاد کا ہو رہا ہے وہ مرد ہو یا عورت۔
زیر بحث موضوع کا ایک اور پہلے سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ کچھ مذہبی صحائف میں زوال آدم یا جنت سے آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے کا سبب عورت کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظر اس حوالے سے قطعا مختلف ہے۔
اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو ایک درجن مقامات پر آپ کو اس واقعے کا ذکر ملے گا۔ مثال کے طور پر انجیل مقدس میں آدم علیہ السلام کے باغ بہشت سے اخراج کا باعث عورت کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظر اس حوالے سے قطعا مختلف ہے۔
اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو ایک درجن مقامات پر آپ کو اس واقعے کا ذکر ملے گا۔ مثال کے طور پر سورۃ اعراف کی انیسویں آیت۔ ان تمام مقامات پر آدم و حوا علیہما السلام کا طرزِ عمل یکساں ہی بتایا گیا ہے۔ دونوں سے غلطی ہوئی، دونوں کو اپنی غلطی پر ندامت ہوئی۔ دونوں معافی کے خواستگار ہوئے اور اللہ تعالٰی نے دونوں کی توبہ قبول فرمائی۔
اس کے مقابلے میں اگر آپ بائبل کا نقطہ نظر جاننا چاہیں تو کتاب پیدائش کے تیسرے باب کا مطالعہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری حوا علیہا السلام پر عاید کر دی گئی ہے۔ یہی نہیں حوا علیہا السلام کی اس غلطی کو گناہ قرار دیا گیا اور یہ عقیدہ دوضع کر لیا گیا ہے کہ ہر انسان ہی گناہ گار پیدا ہوتا ہے۔
کتاب پیدائش کی مندرجہ ذیل آیت میں اس حوالے سے بائبل کا نقطہ نظر مندرجہ ذیل بیان میں واضے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
“پھر اُس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا، تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔” (پیدائش، باب 3، آیت 16)
گویا نہ صرف یہ کہ آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کا سبب عورت کو بتایا جا رہا ہے بلکہ حمل اور اولاد کی پیدائش کی تکالیف کو عورت کی سزا بتایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان بیانات سے عورت کے وقار اور مرتبے میں اضافہ تو ہوتا نہیں۔ دوسری طرف اگر اس حوالے سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام ان تکالیف کو عورت کی عظمت اور وقار میں اضافے کا سبب بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان آیات مبارکہ کا مطالعہ کیجیئے۔
سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :
” لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔” (سورۃ 4، آیہ 1)
اسی طرح سورۃ لقمان میں آتا ہے :
“اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔” (سورۃ 31، آیہ 14)۔
سورۃ احقاف میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :
وَوَصَّيْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّہُ كُرْھًا وَوَضَعَتْہُ كُرْھًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَھْرًا ط (سورۃ 46، ایہ 15)
“اور ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے۔ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسی کو پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔”
جیسا کہ مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی سے واضح ہوتا ہے، اسلام ماں بننے کے عمل کی عظمت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عورت کو اس حوالے سے انتہائی اعلٰی اور ارفع مقام عطا کرتا ہے۔ ان آیات مبارکہ کو پڑھنے کے بعد آپ کی رائے کیا بنتی ہے؟ اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے، کیا وہ واقعی فرسودہ ہیں؟ اللہ تبارک و تعالٰی کی بارگاہ میں برتری کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ تقویٰ، پرہیز گاری اور نیکی ہی کی بنیاد پر اللہ تعالٰی کے ہاں مقام کا تعین ہوتا ہے۔
سورۃ حجرات میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ارشادِ پاک ہے :
“لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب سے زیادہ جاننے والا اور باخبر ہے۔” (سورۃ 29، آیہ 13)۔
جنس، رنگ، نسل اور مال و دولت اسلام میں عزت کا معیار نہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی کے ہاں معیار ایک ہی ہے اور وہ ہے “تقویٰ”۔ محض جنس کی بنیاد پر نہ اللہ کے ہاں سزا ملے اور نہ جزا۔
سورۃ آلِ عمران میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّي لاَ اُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ اَوْ اُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ ھَاجَرُواْ وَاُخْرِجُواْ مِن دِيَارِھِمْ وَاُوذُواْ فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لَاُكَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَيِّئَاتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ ثَوَابًا مِّن عِندِ اللّہِ وَاللّہُ عِندَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ۔ (سورۃ 3، آیہ 195)
“پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے۔”
سورۃ احزاب میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَھُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّہَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ اَعَدَّ اللَّہُ لَھُم مَّغْفِرَۃً وَاَجْرًا عَظِيمًا۔ سورۃ 33، آیہ 35)
“بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔”
اس آیت مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ اسلام مرد اور عورت کے درمیان نہ تو اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں کے حوالے سے کوئی تفریق روا رکھتا ہے اور نہ ہی فرائض و واجبات کے لحاظ سے۔ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور زکوٰۃ دینا جس طرح مرد پر فرض ہے، اسی طرح عورت پر بھی لازم ہے۔
البتہ عورت کو کچھ اضافی سہولتیں ضرور دی گئی ہیں۔
ایام مخصوصہ کے دوران عورت کو نماز کی رخصت دی گئی ہے۔ یہ نمازیں اسے معاف ہیں۔ اسی طرح حیض و نفاس کے دوران چھوٹنے والے روزے بھی وہ بعد میں رکھ سکتی ہے۔
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام عورت اور مرد پر یکساں اخلاقی ذمہ داریاں عاید کرتا ہے اور ایک ہی جیسی حدود و قیود نافذ کرتا ہے۔ سو آپ کے خیال میں اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟
Load/Hide Comments