مفتی انس عبدالرحیم
آج دنیا کا ہر فرد مسائل کا شکار نظر آتا ہے ۔ معاشرہ مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔بیوی کو میاں سے شکایت ہے کہ ” وہ اس کے حقوق ادا کرنے سے تہی دامن ہے ” تو میاں کو بھی بیوی سے یہی “دکھ ” ہے ۔۔۔والدین کو شکوہ اولاد سے ہے اور اولاد کو گلہ والدین سے ہے ۔۔۔ساس کو بہو سے تحفظات ہیں اور بہو کو ساس سے۔۔۔۔معلم اور استاذ شاگردوں کے نامناسب رویوں سے پریشان ہیں اور شاگرد ،اساتذہ کی خامیوں پر سراپا احتجاج ہیں۔۔۔ملازمین ،قلیل تنخواہ اور ناروا سلوک کا رونا رو رہے ہیں تو مالکان ۔کام چوری کی فرد جرم عائد کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔انتظامیہ اپنے ماتحتوں اور رعایا سے شاکی ہے تو سویلین اور ماتحت ادارے انتظامیہ سے بد اعتماد ۔۔۔غرض ہر طرف نفرت اور بد اعتمادی کی فضا ہے ۔
ان تمام مسائل ومشکلات کا آسا ن سا حل ہے۔اور وہ یہ کہ ہر شخص اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنے اوپر عائد فرائض اور ذمہ داریوں کی فکر کرنا شروع کردے ۔
بیوی اپنے حقوق کا مطالبہ ترک کر کے شوہر کو اس کے حقوق ادا کرنا شروع کردے اور شوہر بیوی سے اپنے حقوق کا لوہا منوانے کی بجائے ،اپنے ذمہ عائد بیوی کے حقوق ادا کرنا شروع کردے ۔والدین ،اولاد کے حقوق ادا کرنے کی فکر کریں اور اولاد،بجائے اپنے حقوق حاصل کرنے کے ،والدین کے حقوق ادا کرنا شروع کردیں ۔ساس،بہو ، کو بیٹی کا درجہ دینا شروع کردے اور بہو ساس کو اپنی ماں کا درجہ دینے کی فکر کرے۔غرض ہر طبقہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر اپنے ذمے عائد دوسروں کے حقوق کی فکر شروع کرے۔
جب مالکان ، وقت پر تنخواہ ادا کر نے لگیں گے اور ملازمین کے جائز مطالبات کا حترام کریں گے اور ادھر ملازمین کام چوری کی لعنت سے بچنا شروع کردیں گے تو مالک اور ملازم کا جھگڑا ختم کیوںنہ ہوگا ؟ جب دکاندار اور تاجر ناپ تول میں کمی اور جعل سازی جیسے جرائم چھوڑدیں گے اور گاہک مناسب داموں میں اور فوری ادائیگی کے ساتھ چیزیں خریدیں گے تو تاجر اور خریدار کا جھگڑا کیوں پیدا ہوگا ؟
تمام معاشرتی ،تعلیمی اور انتظامی مسائل کا پائیدار اور کار گر حل یہی ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہر فرد اپنے حقوق کا تو آوازہ بلند کر رہا ہے مگر دوسروں کے حقوق سے اس کو کوئی سرو کار نہیں ہے،حالاانکہ یہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے ۔
اور ہاں ایک اور بات اگر کوئی فرد آپ کے حقوق ادا نہیں کررہا تو آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم بھی ” ترکی بہ ترکی جواب دیں گے ” اس کے حقوق ادا نہیں کریں گے ۔کیونکہ اس طرح کرنے سے آپ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں رہا ! کوئی ہمارے حقوق اد انہ کرے یا نہ کرے ۔
ہمیں اس کے حقوق ادا کر کے دکھانا ہے۔ اس طرح کرنے سے کم از کم معاشرے کے آدھے مسائل تو حل ہوں گے ۔امید کرنی چاہیے کہ ہمارے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر دوسرے لوگ بھی ہمارے حقوق نبھانا شروع کردیں گے !
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جانبین کے یہ حقوق کیاکیاہیں ؟ تمام معاشرتی کرداروں کے حقوق کیسے معلوم ہوں ؟ اس کا جواب اس ارشاد نبوی ﷺ میں موجود ہے : “اپنے بھائی کے لیے وہی بات پسند کرو جو خود اپنے لیے پسند کرتے ہو اور اس کے لیے وہ بات ناپسند کرو جو خود اپنے لیے تمہیں ناپسند ہے ” اس کے علاوہ ” آداب معاشرہ “اصلاح خواتین ” اور بہشی زیور ” یہ وہ کتابیں ہیں جن میں ان تمام حقوق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ زادالسعید میں بھی وقتا فوقتاً ان کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔
یاد رکھیں ! معاشرہ کی تبدیلی فرد کی تبدیلی پر منحصر ہے ۔ ( معاشرہ کا ہر فرد اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کرنا شروع کردے تو خود بخود سارا معاشرہ تبدیل ہوجائے گا ) اور فرد کی تبدیلی کا انحصار ، خوف خدا، اخلاقیات پر عمل اور ان اوصاف کے حامل لوگوں سے تعلق رکھنے پر ہے ۔
اے ہمارے رب ! ہم سب کے ،تمام مسلمانوں کے اور دنیا کے تمام لوگوں کے تمام مسائل وتنازعات کو حل فرما ! آمین !