کچھ یادیں مسلمانوں کی

مسلمانوں کا ماضی  نہایت  شان دار  گزرا ہے ۔دنیا پر  مسلمانوں  نے ایک ہزار سال نہایت  طمطراق کے ساتھ حکومت کی  ہے۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان  امن وسلامتی  کے ساتھ زندگی  گزارا کرتے تھے ۔ان کی جان،مال ،عزت وآبرو محفوظ  تھی۔ایک مہذب  اور ترقی  یافتہ  قوم کہلاتے تھے اور  ان کی قوت  کو دنیا بھر میں “سپر طاقت” تسلیم  کیاجاتا تھا ۔اپنے دور  عروج  میں مسلمانوں  نے علم وفن   میں بھی  اپنی فتوحات  کے جھنڈے  گاڑے ۔چنانچہ   خود مغربی  دانشور  اس کے   معترف  ہیں کہ مسلمانوں   کی قابل  قدر تحقیقات  ہی جدید علوم  وفنون  کی بنیاد اور اساس ہیں۔

یہ تو مسلمانوں  کا شاندار ماضی   ہے۔افسوس کہ ! مسلمانوں کا “ماضی ” جس قدر  تاب ناک  اورروشن  ہے۔اس کا حال اتنا ہی کرب ناک  اور تاریک  ہے۔مسلم  امہ کی  موجودہ صورت  حال یہ ہے کہ اس کے اتحاد کا شیرازہ  بکھر  ہوچکا ہے ۔مسلم دنیا  اس وقت  رنگ ونسل ،قوم  قبیلہ  اور سیاسی ،لسانی  اور  مسلکی وابستگیوں  میں بری  طرح تقسیم  ہوچکی ہے۔دنیا میں جو قوم  اس وقت  سب سے  زیادہ ذلت  وپسپائی  اور ظلم  وستم کا شکار   ہے وہ مسلمان  قوم ہے۔ اغیار  سے گلہ نہیں   کہ وہ تو ٹھہرے   ہی ستم  گر! شکوہ  اپنوں   سے ہے  جو ایک اللہ،ایک  رسول اور ایک قرآن  کے نام  لیوا ہونے  کے باوجود  اندرون  خانہ ایک   دوسرے  کو گاجر   مولی کی طرح  کاٹنے میں مصروف   ہیں۔پھر روز بروز بڑھتی ہوئی  مہنگائی، کرپشن   اور لوٹ  گھسوٹ   کا بلند  ہوتا ہوا گراف ،تیزی  سے بڑھتا  ہوا دینی   اور اخلاقی  انحطاط ،جرائم   کی اونچی  ہوتی ہوئی  شرح ،خوف  ودہشت  کا بے قابو  عفریت ،جدت   پسندی  میں ھد سے زیادہ   شدت اور  پرانے خیالات  میں غلو،یہ سب   وہ مشکلات   اور چیلنجز ہیں، جن  سے نکلنتے  کی امت مرحومہ  کو بظاہر  کوئی سبیل   نظر نہیں آرہی ۔

مسلامنوں کے اس زوال  اور  دیوالیہ  پن کی مختلف  وجوہات  ہوسکتی ہیں  ۔وحی  کی روشنی  میں ہمیں  اس کی جو وجہ نظر آتی ہے  وہ یہ ہے :

سورۃ الرعد  آیت  11 میں جل شانہ  کا ارشاد  ہے :

” یہ اٹل   بات ہے کہ  اللہ تعالیٰ  اس نعمت  کو جو کسی  قوم  کو حاصل  ہے۔نہیں بدلتا۔جب تک  کہ وہ قوم  (اللہ کی نافرمانی  کر کے ) اپنی حالت خود  نہ بدلے “۔

سورۃ الروم آیت 41 میں اللہ  کریم فرماتا ہے  :

“خشکی  اور پانی  میں لوگوں  کے برے اعمال  کے سبب  فساد پھیل  گیا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کی بعض بد اعمالیوں کا مزہ چکھائے ،شاید  کہ وہ باز آجائیں  !”

حدیث پاک  میں نبی اکرم ﷺ  کا ارشاد ہے  :

 “در حقیقت  تمہارے  اعمال  ہی تمہارے   حکمران  ہیں۔”  (یعنی  جیسے اعمال  رعایا کے ہوں گے ،ان کے  حکمران   بھی ویسے  ہوں گے )

اس لیے چہروں  اور نظام   کو بدلنے ،حالات  کے دھارے  کو اپنے موافق کرنے اور  اپنے “مستقبل   ” کی  بہتر   تعمیر  کے لیے جس چیز  کی مسلمانوں  کو سب سے زیادہ ضرورت ہے  وہ ہے اللہ کی طرف  رجوع،توبہ وانابت  اور بد اعمالیوں  سے کنارہ کشی ۔

ہمارے  لیے یہ کسی خوشخبری   سے کم نہیں  کہ نیکیوں   کا موسم  بہار  چند دن   کے فاصلے  پر ہے۔ دل اور  اعمال  کو بدلنے  کا یہ بہترین   سیزن ہے ،نیکیوں  کے اس سیزن  میں ہر مسلمان  خود  کو بدلنے  کا پختہ ارادہ  کرے۔ اچھے  لوگوں کی  ہم نشینی   اختیار  کرے اور گناہوں  سے توبہ  تائب  ہو کر پاک صاف   ہوجائے ۔ یقین جانیے  ! اسی میں  ہماری  تمام مشکلات  کا حل   پوشیدہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  : اور جن لوگوں  نے ہمارے  لیے کوشش اور جدوجہد  کی ہم ان  کو ضرور  اپنے راستے  دکھادیں گے  اور اللہ تو نیکی   کرنے والوں کے ساتھ   ہے ” (العنکبوت :69)

اللہ تمام مسلمانوں  کا حامی  وناصر ہو!۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں