احسن ٹیکسٹائل فیکٹری کا مالک ہے ۔ بہترین ڈیزائن کے کپڑے احسن کی فیکٹری میں بنتے ہیں ۔ اس کی پروڈکشن کا ایک حصہ ایکسپورٹ بھی ہوتا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احسن نے اپنے بزنس کو خوب پھیلالیا ۔ یہ ایک چھوٹے سے کپڑے کے کاروبار سے یہاں تک پہنچا تھا۔ ابتداء میں اکیلا ہی بزنس چلا رہاتھا ۔ پھر شراکت داری کرلی۔ بزنس اچھا چل رہا ہے ۔ لیکن احسن کی آگے بڑھنے کی جستجو اسے بے چین کیے رکھتی ہے ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جس کے دو دن برابر ہوں وہ خسارے میں ہے ۔ ہر اگلا دن پچھلے سے بہتر ہونا چاہیے ۔ اس لیے احسن کاروبار کو مزید پھیلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اگلے پانچ سال میں وہ ملکی مارکیٹ میں لیڈ کرے ۔ فی الحال وہ کاروبار کو خود سنبھال رہا ہے ، لیکن کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے سرمایہ بھی کافی چاہیے ۔ نیشنل اور انٹر نیشنل مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے لیے کاروبار کے ہر شعبے کے ماہرین کی ضرورت ہے۔ بس یہ ہے احسن کی پریشانی اور بے چینی کی بنیادی وجہ۔
وہ اپنا مسئلہ لے کر اپنے ایک دوست فہد کے پاس آتا ہے۔ اس کے سامنے پوری صورت حال رکھتا ہے ۔ فہد ایک نیک ، ذی شعور اور مدبر آدمی ہے۔ وہ خود ایک قانونی مشاورت کی فرم چلاتا ہے ۔ فہد ، احسن کو مشورہ دیتا ہے کہ اب تم اس لیول پر پہنچ گئے ہوکہ اپنے ادارے کو ” پبلک لمیٹڈ کمپنی ” میں تبدیل کر لو۔ قانونی حوالے سے میں تمہاری مدد کردوں گا ۔ کمپنی بنالینے کا فائدہ یہ ہوگا کہ سرمائے کی فراہمی آسان ہوجائے گی ۔ اس طرح تم اپنی کمپنی کے شئیرز مارکیٹ میں بیچ کر سرمایہ جمع کرسکتے ہو۔ کمپنی کا ایک اہم فائدہ یہ ہوگا کہ پر شعبے کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا آسان ہوگا ،کمپنی میں مالکان اور انتطامیہ الگ الگ ہوتی ہے ۔مالکان شئیرز ہولڈرز ہوتے ہیں، جبکہ انتظامیہ انتہائی لائق وفائق ماہرین پر مشتمل ہوتی ہے ۔
اس طریقہ کار کے نتیجے میں کاروبار کے کامیاب ہونے اور پھلنے پھولنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں ۔ دیکھو ! یہ غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف کاروباری میدانوں میں کس طرح چھا جائی ہوئی ہیں ؟ ان کی ترقی میں ایک عنصر کمپنی کے طریقہ کار کا بھی ہے ۔ تم چاہے اکیلے ہو یا پارٹنر ، کمپنی سے مقابلہ نہیں کر پاؤ گے ۔ یہ کمپنیاں ملٹی نیشنل لیول پر کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ا ن میں اکثر مغربی ممالک کی ہیں ۔پاکستان کی ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت کم ہیں ۔ تم جیسے تاجر ہی آگے بڑھ کر ملک وملت کی خدمت کرسکتے ہیں ۔ روگار کے مواقع پیدا کرسکتے ہیں ۔ وسائل کا بہتر استعمال کر کے ملکی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں ۔ اسی سے ملک کا نام روشن ہوگا ۔ میرا مشورہ ہے کہ تم ہمت کرو اور اپنے بزنس کو کمپنی کے سانچے میں ڈھال لو۔ اللہ پاک تمہارے کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے ۔
احسن کہتا ہے : اگر تم کہتے ہو تو میں قدم بڑھاتا ہوں ، لیکن ایک بات سمجھاؤ، تم ماشاء اللہ تم ماشاء اللہ وکیل بھی ہو۔ بزنس منیجمنٹ کے گریجویٹ بھی ہو۔ مجھے بتاؤ منیجمنٹ کیا ہے ؟ منیجمنٹ کے اہداف کیا ہوتے ہیں منیجمنٹ کس طرح کام کام کرتی ہے ؟ منیجمنٹ کس طرح کام کرتی ہے ؟ منیجمنٹ کو بزنس میں کیسے نافذ کیاجاتا ہے ؟ تاکہ کمپنی کی طرف جانے سے پہلے ہی میں اپنے بزنس کی بہتر منیجمنٹ کی طرف لے جاسکوں ، فہد سمجھانا شروع کرتا ہے ہے۔ تو آئیے ! دیکھتے ہیں کہ فہد کس طرح احسن کو بہتر منیجمنٹ کے لیے قائل کرتا ہے ۔
بزنس منیجمنٹ کیا ہے ؟
فہد کہنا شروع کرتا ہے : دیکھو بھائی ! تم کام کرنے جارہے ہو۔ وہ کام معلوم ہے ۔ تم چاہو گے کہ وہ کام کم سے کم وسائل میں ہوجائے ؟ بزنس منیجمنٹ کاموں کو بہترین انداز میں کروانے کو ہی کہتے ہیں ۔ جیسے تمہیں کپاس خریدنی ہے ۔ تم یہ چاہو گے کہ کپاس میری کمپنی سے قریب تر ین مارکیٹ سے مل جائے ۔ قیمت کم سے کم ہو۔ کوالٹی اچھ ی ہو۔ تو اچھی کپاس کم سے کم قیمت میں، بروقت خرید لینا منیجمنٹ ہے ۔
بزنس منیجمنٹ کیسے کام کرتی ہے ؟
اب آجاتے ہیں اس سوال کی طرف کہ بزنس منیجمنٹ کام کس طرح کرتی ہے ؟ سنو! بزنس منیجمنٹ کے مرحلہ وار چار کام ہیں :
٭ منصوبہ بندی کرنا ٭نظام بنانا ٭رہنمائی کرنا ٭نگرانی کرنا
آؤ میں تمہیں ان چاروں کے بارے میں بتاتا ہوں ۔
1)منصوبہ بندی یا پلاننگ
کسی بھی کام کو بہتر ا نداز میں کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے کرنے سے پہلے اس کی تیاری کر لی جائے ۔ پلاننگ کام کی تیاری کا مرحلہ ہے۔اس مرحلے میں ہم تین کام کرتے ہیں :
1)اہداف کا تعین : اس کام کو کرنا کیوں چاہتے ہیں ؟ یہ وہی بات ہے جسے حدیث میں کہاگیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ۔ ہدف کیا ہے ؟ جیسے کپاس کی خریداری میں ہدف کم سے کم قیمت پر اچھی کپاس کی خریداری ہوسکتا ہے ۔
2) دوسرا کام منصوبہ بندی میں یہ ہے کہ یہ طے کر لینا کہ اس ہدف کو ھاصل کرنے کا طریقہ کیا ہوگا ؟ جیسے کپاس کی خریداری کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ مارکیٹ میں موجود دکان داروں سے پہلے ریٹ لیے جائیں گے۔ پھر سیمپل لیے جائیں گے ۔ پھر آرڈر بک کروایاجائے گا ۔ پھر ڈلیوری ہوگی اور ڈلیوری سے پہلے آنے والے مال کو چیک کیاجائے گا کہ وہ سیمپل کے مطابق ہے یا نہیں ۔ یہ سب باتیں اس مرحلے میں طے ہوجائیں گی ۔
3)تیسری بات یہ طے ہوجائے گی کہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے وسائل کتنے اور کون سے لگیں گے ؟ جیسے اس مثال میں یہ طے کر لینا کہ یہ کام پر چیز آفیسر کرے گا ۔ اوراس کام کے لیے مثال کے طور پر 10 لاکھ بجٹ ہے ۔
٭2 نظام بنانا
کام سے پہلے اس کی پلاننگ کر لی۔ اب کام کروانا ہے ۔ اس کے لیے ایک نظام بنانا ہوگا ۔ اس مرحلے پر تین کام کیے جاتے ہیں ۔
1)شعبہ جات یا ٹیمیں بنانا: مختلف کام کرنے کے لیے مختلف شعبہ جات یا ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ جیسے مارکیٹنگ کا کام کر نے کے لیے الگ شعبہ ، پروڈکشن کے لیے الگ اور مالیاتی امور کے لیے الگ ۔ ہر شعبہ یا ٹیم اپنے کاموں کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔
2) اختیارات اور ذمہ داری کا تعین : شعبہ بن گیا یا ٹیم بن گئی ۔اب ان شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی ذمہ داری اورا ختیارات بتائے جاتے ہیں ۔ جیسے ایک شعبہ کا سربرراہ ہے ، ایک اس سے نیطے منیجر ہے اس کے نیچے ورک فورس ہے،اب یہ متعین کرنا کہ ورک فورس کیا کام کرےگی ،منیجر کی کیا ذمہ داری ہوگی ؟ سر براہ کن چیزوں کو دیکھ رہا ہوگا؟ یہ تمام ترتیب بنائی جائے گی ۔
3) وسائل مختص کرنا : کاموں کے شعبے بھی بنادیے ، لوگوں کو ان کے کام بھی بتادیے ، اب ان کا موں کو کرنے کے لیے انہیں وسائل کی ضرورت پڑے گی ۔اس کی ترتیب بنائی جائے گی ،کچھ وسائل تو ایک دفعہ کے ہیں ۔ جیسے اکاؤنٹینٹ کو ایک کمپیوٹر دے دیا ہے ۔ پھر اس کے بعد کام کرنے کے لیے مزید درکار وسائل کس ترتیب سے دیے جائیں گے ؟ اگر کسی شعبہ کو اسٹیشزی کی ضرورت ہوگی تو وہ حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہوگا ؟ ساما ن خراب ہوگیا تو انہیں ٹھیک کس طرح کیاجائے گا ۔
لگن کے ساتھ کام کروانا
ہم نے لوگوں کو کام دے دیے ۔ ٹھیک ۔ کیا وہ کرلیں گے ؟ کیا وہ اچھے انداز میں اپنے کاموں کو کریں گے ؟ ضروری نہیں۔ وہ انسان ہیں۔ مشین نہیں ۔ تو اب منیجمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا ماحول فراہم کرے جس میں افراد دل وجان کے ساتھ کام میں لگیں رہیں ۔ اس کے لیے دو کام کرتے ہیں :
اچھی اقدار کا فروغ : ادارے میں ا چھی اقدار کو فروغ دیاجائے تو افراد اپنے کاموں کو بہتر انداز میں کرتے ہیں۔ جیسے اچھے کام پر مالی وغیرہ مالی حوصلہ افزائی ،ادارتی سیاست کی حوصلہ شکنی اور عمومی محنت کا ماحول وغیرہ ، کیونکہ بہرحال ماحول اثر ہوتا ہے ۔
٭ادارتی اہداف کا پروپیگنڈا :ادارے کے اہداف جیسے اس سال ہمارے ادارے کا ہدف اپنی سیل میں 20 فیصد اضافہ ہے ۔ جب ادارے کے اہداف ہر ملازم کی زبان پر ہوں گے تو انہیں ایک احساس ہوگا کہ ہمیں ہی یہ اہداف پورے کرنے ہیں۔ لہذا دل لگا کر کام کریں گے ۔
کاموں کی نگرانی
ہم نے کام دے دیے ۔امید ہے کام ہو بھی رہے ہیں؟ لیکن کیا کام صحیح ہورہے ہیں ؟ اس کے لیے نگرانی کا نظام بنانے کی ضرورت ہے ۔ لائن منیجر عموما ً براہ راست کاموں کی نگرانی کرتے ہیں ۔ اوپر والے منیجر ادارے کے اہداف اور کارکردگی کے تقابل سے نگرانی کرتے ہیں ۔اوپر والے منیجر ادار ے کے اہداف اور کار کردگی کے تقابل سے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ نگرانی کا عمل کاموں کو ٹرکیک پر رکھتا ہے ۔ بھائی یہ ہے منیجمنٹ ۔
فہد ساری تفصیلات بتانے کے بعد خاموش ہوا۔ ” یہ تو بڑی قیمتی باتیں ہیں۔ ان میں سے بہت سی تو میں کر رہ اہوں ، لیکن میں سمجھتا ہوں اگر ان تمام باتوں پر توجہ دی جائے تو موجود ہ بزنس کو بھی چار چاند لگ جائیں گے ۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ اپنے بزنس کی منیجمنٹ بہتر بنانے کے لیے کوئی تجربہ کار ماہر منیجر رکھ لیتا ہو”۔ احسن جو بہت دیر سے فہد کا لیکچر سن رہاتھا ، نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
“اھسن ایک بات سنو ! ” فہد نے پھر سے کہنا شروع کیا: ” میں نے سنا ہے کہ کراچی میں جامعۃ الرشید ایک ادارہ ہے، وہاں MBA کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کو مفتی بھی بناتے ہیں۔ اگر تم نے اپنے ادارے کو سنوارنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اعلیٰ منیجمنٹ کے انتظام کے ساتھ ایسے مفتی صاحب کو بھی ضرور ساتھ رکھ لینا۔ یہ مفتی صاحب منیجمنٹ کے ساتھ ساتھ تمہارے سارے بزنس کو بھی شریعت کے اصولوں کے مطابق کردیں گے “۔ ” فہد بھائی ! یہ تو بہت اچھا مشورہ ہے ۔ میں ان شاء اللہ ایک سینیئر کے ساتھ ساتھ ایک مگتی صاحب جو کہ منیجمنٹ کو بھی سمجھتے ہوں ، ضرور رکھوںگا ۔”
بھائیو ! احسن نے تو عہد کر لیا کہ اپنے بزنس کو منظم کر کے مارکیٹ میں مقابلہ بھی کرے گا اور اپنے بزنس کو شریعت کے اصولوں کے مطابق کر کے برکتیں بھی لوٹے گا۔ کہیں ہم پیچھے نہ رہ جائیں ۔ ایک مسلمان کا مقابلہ دنیا کی دوڑ میں نہیں آخرت کی دوڑ میں ہے ۔ کون ہے جو اس میں آگے بڑھتا ہے۔ قدم بڑھائیں ، ہم اپنے پیارے اللہ کو ماں سے زیادہ محبت کرنے والا پائیں گے ۔اللہ پاک ہمارے راستے آسان فرمادے گا ۔ رزق کے دروازے کھل جائیں گے ۔ خیر وبرکت پھیلے گی ۔ یہ اللہ کے وعدے ہیں ۔ سچے عمل کی کمی ہے ۔اللہ پاک ہمیں باعمل بنا دے ، آمین ۔