حضرت معاذ، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور عطا، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے ہر مہینہ مں تین روزوں کا حکم تھا پھر حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی امت کے لےے اس حکم کو بدل دیا گیا اور ان پر مبارک مہینہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ گزشتہ امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے اگلی اُمتوں پر فرض تھے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا اور عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہوجاتا تھا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں گزشتہ اُمتوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام پر ہر ماہ کے ایام بیض (١٣،١٤ ،١٥ تاریخوں) کے روزے فرض تھے۔ یہودیوں پر عاشورہ کا روزہ فرض تھا اور ہر ہفتہ کے سینیچر و دیگر چند روزے بھی فرض تھے۔ نصاریٰ پر رمضان المبارک کا روزہ فرض تھا، لیکن موسم گرما میں رمضان کا مہینہ آجانے کی وجہ سے یہ لوگ روزوں سے کترانے لگے اور اس کے بدلے موسم ربیع میں پچاس روزے رکھنے لگے۔
روزہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان بات چیت اور گفتگو سے رک جائے۔ یہ طریقہ یہودیوں میں رائج تھا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم علیہ السلام کی زبان میں اس کی تعبیر یوں ہے آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔” (مریم) اسپنسر اور جیلن نے اپنی تصانیف میں وسطی آسٹریلیا کے باشندوں کے حالات میں لکھا ہے کہ جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو اس کی بیوی سال بھر بات نہ کرنے کا روزہ رکھتی تھی۔ ناجائز باتوں اور حرام گفتگو سے بچنا اسلام میں ثواب ہے، لیکن خاموش رہنے کا روزہ رکھنا اسلام میں کالعدم اور منسوخ کردیا گیا ہے۔
اسلام اور روزہ:
مسلمانوں پرصیام رمضان کی فرضیت 2 ھ میں ہوئی۔ اس سے قبل حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم عاشورہ (دسویں محرم الحرام) اور ایام بیض (قمری ماہ کی 15,14,13 تاریخوں) کے روزے رکھتے تھے۔ (اللباب جلد 1 صفحہ 162) ۔ صوفیاء کرام نے لکھا ہے کہ شجر ممنوعہ کے استعمال سے حضرت آدم علیہ السلام کے اندر جو جراثیم باقی رہ گئے تھے ان کے خاتمے کے لےے حضرت آدم علیہ السلام نے تیس روزے رکھے تھے جنہیں بعد میں نبی آخرالزمان اور ان کے امتیوں پر فرض کیا گیا ہے۔
اسلام میں روزے کے اندر تین بار تبدیلیاں ہوئیں ہیں۔ نبی اکرمﷺ جب مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے یہ پہلی تبدیلی تھی۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے”کتب علیکم الصیام” نازل فرماکر رمضان کے روزے فرض کیے۔
رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد شروع میں یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے، جو چاہے روزہ نہ رکھے اور فدیہ دیدے۔ پھر یہ آیت اُتری ”فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ” تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں اقامت کی حالت میں ہو، وہ روز رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو، تندرست ہو، بیمار نہ ہو، اس پر روزہ رکھنا ضروری ہوگیا۔ ہاں بیمار اور مسافر کے لےے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا معذور جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ یہ دوسری تبدیلی تھی۔
تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ابتدا میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا، سو گیا تو پھر گو رات ہی کو جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لےے منع تھا۔ پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کرکے رات کو تھکے ہارے گھر آئے، عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی، دوسرے دن کچھ کھائے پےے بغیر روزہ رکھا، لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور ﷺنے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے سارا واقعہ سنا دیا۔ یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا، ادھر حضرت عمر نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی سے جماع کر لیا اور حضور ﷺ کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا۔ ان دونوں واقعات کے بعد یہ آیت ”احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الٰی نسائکم” سے ”ثم اتموا الصیام الی الیل” تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور اپنی بیوی سے جماع کرنے کی رخصت دی گئی۔
اسماعیلیہ اور روزہ:
ان کے نزدیک زکوٰ ۃ کے بدلے دسواں حصہ امام زمانہ کو دینا لازم ہے۔ حج کے بدلے امام زمانہ کا دیدار ہے۔ پہلے یہ لوگ بمبئی حج کرنے جاتے تھے۔ اب وہ بھی منسوخ ہے۔ روزہ ان کے مذہب میں فرض نہیں ہے۔
آغا خانی اور روزہ:
روزہ تو اصل میں آنکھ، کان، اور زبان کا ہوتا ہے، کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ان کا روزہ سوا پہر کا ہوتا ہے جو صبح دس بجے کھول لیا جاتا ہے۔ وہ بھی اگر مومن رکھنا چاہے ورنہ فرض نہیں ہے۔ البتہ سال بھر میں مہینے کا چاند جب بھی جمعہ کے روز کا ہوگا اس دن یہ لوگ روزہ رکھتے ہیں۔
نصیریہ اور روزہ:
فرقہ نصیریہ کے متبعین زکوٰۃ کے قائل نہیں ہیں البتہ اپنی کمائی کا پانچواں حصہ بنام امام دیتے ہیں۔ ان کا روزہ صرف بیوی کی میل میلاپ سے بچنا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تیس مردوں اور تیس عورتوں سے بات چیت ترک کردینا روزہ ہے۔
عیسائی اور روزہ:
ان کے نزدیک صرف حیوان اور چربی والی چیزوں کو کھانے سے بچنے کا نام روزہ ہے۔
یہودیوں کا روزہ:
ان کے نزدیک صرف عید یوم التکفیرجس کو یوم التوبہ بھی کہا جاتا ہے کے دن روزہ ہے۔ یہ یہودی کیلنڈر کے مطابق دسویں مہینے کو منائی جاتی ہے۔ اس میں نو دن تک دنیاوی رشتہ ختم کرنا، عبادت کرنا، روزے رکھنا اور کھانا پینا چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ اس کو یوم کپر اور یوم کفارہ بھی کہا جاتا ہے۔
پرانے زمانے میں یہودی ہفتہ کے دن اور ہر چاند کے ماہ پہلی تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے ان دنوں میں کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے، اس کے بعدیہ روزہ ختم ہوگیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ان دنوں میں صرف کام نہ کریں۔ یہودیوں کا سب سے اہم روزہ عیسوی ماہ کی دسویں تاریخ کا روزہ ہے۔ جسے وہ کفارہ کے دن کا روزہ کہتے ہیں۔ یہ روزہ یہودیوں پر اپنے گناہوں سے معافی کے تعلق سے فرض کیا گیا ہے۔
بدھ مت اور روزہ:
واسوWasco (جولائی) اس ماہ کے پورے چاند کے موقع پر مہاتما بدھ کی زندگی کے واقعات کے حوالے سے تقریبات ہوتی ہیں۔ اس ماہ سے بدھ کے چلے کا بھی آغاز ہوتا ہے جو تین مہینے تک جاری رہتا ہے۔ ان تین مہینوں میں بھکشوؤں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چلے کے دوران مخصوص احکامات پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے اور موسیقی، رقص، خوشبو، اونچی جگہ (آرام دہ بستر اور پلنگ) پرسونے سے بچنا ہوتا ہے، اس عرصہ میں شادی بیاہ کی اجازت نہیں ہے۔ ان تینوں مہینوں میں دن کے بارہ بجے کے بعد روزہ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ چلہ اکتوبر میں ختم ہوتا ہے۔
بدھ مذہب کے پیروکار چاند کی پہلی تاریخ، نویں تاریخ، پندرھویں تاریخ اور بائیسویں تاریخ کو طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں اور وہ ان چار دنوں میں پورا آرام کرتے ہیں۔ روزے میں آگ کی پکی ہوئی چیزوں کے علاوہ بقیہ چیز (پھل فروٹ) کھا سکتے ہیں۔
فرقہ صابئہ مندائیون اور روزہ:
ان کا روزہ یہ ہے کہ پورے سال میں 36 دن گوشت سے پرہیز کرنا ہے۔ ابن ندیمؒ متوفی 385ھ / 1004ء نے اپنی کتاب ”الفہرست” میں اور ابن عبری متوفی 685ھ / 1286ء نے اپنی کتاب ”تاریخ مختصر الدول” میں صراحت کی ہے کہ یہ لوگ بھی شروع میں مسلمانوں کی طرح تیس روزے رکھتے تھے لیکن بعد میں تبدیلی کردی گئی۔
برہمن اور روزہ:
برہمنوں میں جوگی خزاں اور بہار کے شروع موسم میں روزہ رکھتے ہیں۔ چھتری ،سردی اور گرمی کے شروع موسم کے علاوہ ہر چاند کے ماہ کے شروع دو دنوں میں اور چودھویں تاریخ کا روزہ رکھتے ہیں۔
فرقہ یزیدیہ اور روزہ:
یہ لوگ پورے سال میں صرف تین روزے رکھتے ہیں اور عید میلاد یزید مناتے ہیں۔
ذکری فرقہ اور روزہ:
ان کے نزدیک رمضان کے روزے منسوخ ہیں، اس کے بدلے میں ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے روزے رکھنے ہیں۔
فرقہ بلالی اور روزہ:
یہ لوگ رمضان المبارک کے بجائے دسمبر میں روزے رکھتے ہیں۔