جس تعویذ کا معنی واضح نہ ہو،اس کے استعمال کا حکم

سوال: علاج کے لیے تعویذ پہننا جائز ہے؟ جبکہ تعویذ پر لکھے ہوئے الفاظ غیر واضح ہوں اور عامل تعویذ کو کھولنے اور پڑھنے سے منع کرے۔

الجواب حامدا ومصليا:
واضح رہے کہ علاج کے لے ایسے تعویذ جس کا معنی ومفھوم واضح ہو، شرکیہ کلمات نہ ہو نیز اسے مؤثر بالذات نہ سمجھا جاتا ہو،اس کا استعمال جائز ہے اور جس تعویذ کا معنی ومفھوم واضح نہ ہو یا اس میں شرکیہ کلمات ہوں تو اس کا استعمال درست نہیں۔
اس لیے مذکورہ تعویذ اگر ایسا ہے کہ اس کے معنی اہل فن یعنی دین دار عاملوں کے نزدیک غیر واضح ہے تو اسے نہ پہنیں۔

==================

حوالہ جات:
1۔عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان رسول الله (صلى الله عليه وسلم ) كان يعلمهم من الفزع كلمات أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وان يحضرون وكان عبدالله بن عمرو يعلمهن من عقل من بنيه ومن لم يعقل كتبه فأعلقه عليه…

(سنن ابي داود، كتاب الطب: 187/ 2 مکتبہ رحمانیہ)
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعيب(رضی اللہ عنہ ) اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کو گھبراہٹ کے لیے کچھ کلمات سکھاتے تھے “میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں،اس کے غصے سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطان کے پھونک مارنے سے اور یہ کہ وہ حاضر ہوجائیں” حضرت عبداللہ بن عمرو اپنے سمجھدار بیٹوں کو یہ سکھاتے تھے اور جو ناسمجھ ہوتے تو لکھ کر اس کے گلے میں لٹکادیتے تھے۔

2۔وانما تكره العوذة اذا كانت لغير لسان العرب، ولايدري ما هو، ولعله يدخله سحر او كفر او غير ذلك،واما ما كان من القرآن او شيئ من الدعوات فلابأس به…الخ

(رد المحتار: كتاب الحظر والاباحة/523/ 9/ مكتبة دار عالم الكتب رياض )

3۔ واختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو ان يقرأ على المريض والملدوغ او يكتب في ورق ويعلق او يكتب في طست فيغسل ويسقى المريض فأباحه عطاء ومجاهد…..فقد ثبت ذلك في المشاهير من غير انكار…..ولابأس بتعليق التعويذ….الخ

(الفتاوى الهندية: کتاب الحظر والاباحة ، 168 / 9 ، مكتبہ رشيديہ کوئٹہ)
والله سبحانه وتعالى أعلم
صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
14 صفرالمظفر 1446ھ
20 / اگست 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں