وجہ تسمیہ:
سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیاگیا ہے ،اس لیے سورت کا نام سورۂ بنی اسرائیل ہے او راس کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے، اسراء سفرمعراج کو اور خاص طور پر ا س سفر کے اس حصے کہا جاتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے اس لیے اس کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔اس کاایک نام سورۃ سبحان بھی ہے کیونکہ سبحان کے لفظ سے اس کاآغازہوا ہے۔
مرکزی موضوع
نبی کریم ﷺ کی نبوت ورسالت کی عظمت اس سورت کامرکزی موضوع ہے۔سورت میں بیان کردہ واقعہ معراج ، مشرکین کودی گئی وارننگ ،انسانیت اور اعلی اخلاقی اقدار پر مشتمل احکام ،علوم ومعارف ؛یہ سب نبی کریم ﷺ کی عظمت کے گیت گارہے ہیں۔
خلاصہ مضامین
اس سورت کے پانچ اجزا ہیں:واقعہ معراج، بنی اسرائیل کافتنہ وفساد ، اسلامی آداب واحکام ،اعتراضات کاجواب اور دلائل قدرت وتوحید۔
جس وقت یہ سورت نازل ہوئی اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا ،اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیاگیا ہے۔آپ ﷺکوایک ہی رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی لےجایاگیا ،وہاں سے ساتوں آسمانوں ،جنت جہنم، عرش وکرسی کی سیر کروائی گئی اور اللہ رب العزت کے حضور میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی جوآپ سے پہلے کسی کونصیب نہیں ہوئی۔
اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایاگیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کاسامنا کرنا پڑا۔پہلی بار شریعت موسویہ کی خلاف ورزی اوراپنی بے حد سرکشی کے نتیجے میں بابل کابادشاہ بخت نصر ان پر مسلط ہوا،جس کے ظلم سےانہیں 70 سال بعد ایرانی بادشاہ اخسویرس نے نجات دلائی۔دوسری بار ان کی سرکشی اس وقت بڑھی جب انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کا انکار کیا جس کے نتیجے میں طیطوس بادشاہ ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا۔ ان واقعات سے ایک طرف جہاں مشرکین عرب کو سبق دیاگیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے باز آجائیں ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے تودوسری طرف خود مسلمانوں کے لیے بھی سامان عبرت موجود ہے کہ اگر مسلمانوں نے شریعت کی خلاف ورزی کی اور نافرمانی میں حد سے آگے بڑھے تو ان پر بھی بیرونی طاقتیں حملہ آور ہوں گی۔
{وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا (4) فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا (5) ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا (6) إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا} [الإسراء: 4 – 7]
اعتراضات کاجواب
1۔یہ کہتے تھے کہ خدا ئی اختیارات دوسروں کوبھی حاصل ہے ۔جواب دیا گیا کہ اگر زمین وآسمان میں ایک سےزیادہ خدا ہوتے تو ان میں آپس میں رسہ کشی ہوتی اور کائنات کب کی ٹوٹ بھوٹ کی شکار ہوجاتی،کیونکہ جس طرح ایک ملک میں دوبادشاہ نہیں ہوسکتے ۔ایک ادارے میں دوناظم، دوپرنسپل نہیں ہوسکتےتواسی طرح کائنات کے دویازیادہ خدا نہیں ہوسکتے۔کائنات کانظم اور ڈسپلن بتاتا ہے کہ ایک ہی خدا ہے ایک سے زیادہ نہیں۔{قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا } [الإسراء: 42]
2۔تم کہتے ہو کہ بزرگ ہستیاں ،جنات اور فرشتے ہماری حاجت روائی کرتے ہیں ،حالانکہ یہ سب محض مفروضے ہیں ،نہ تو یہ حاجت روائی کرسکتے ہیں نہ ہی مشکل ٹال سکتے ہیں،یہ تو خود اللہ تعالی کے مقرب بننا چاہتے ہیں کہ کس طرح آگے بڑھ کر اللہ کے قریب ہوجائیں۔ یہ کیا کسی کی مدد یاحاجت روائی کریں گے؟{أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ} [الإسراء: 57]
3۔کفار عذاب آنے کا ایسے مطالبہ کرتے تھے جیسے کسی بھلائی اور خیر کامطالبہ کر رہے ہوں۔انسان بڑا جلدباز اور ناسمجھ ہے۔{وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا} [الإسراء: 11]
4۔وہ سمجھتے تھے کہ اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو پیسے دے کر بچاجاسکتاہے۔اپنے گناہ دوسرے کے ذمے ڈالے جاسکتے ہیں پیسے کے عوض۔حالانکہ وہاں نہ دوستی کام آئے گی نہ پیسا، دھن دولت،وہاں توصرف اعمال کام آئیں گے۔{وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الإسراء: 15]
5۔مال داری اور بیٹوں کی کثرت حق پر ہونے کی دلیل نہیں بلکہ کفار کو تو دنیا میں ہی اپنی نیکیوں کابدلہ دے دیاجاتا ہے۔یہ اس کی نیکیوں کا نقد صلا ہوتا ہے ،روز آخرت انہیں عذاب سے کوئی بچا نہ سکے گا۔{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ} [الإسراء: 18]
6۔ایک ہی مضمون مکرر اس لیے ذکر کیاجاتا ہے تاکہ بات دل میں اتر جائے، اس لیے کہ تکرار سے اور بار بار ایک بات کہنے سے بات دل میں اتر جاتی ہے،جیسے ٹپکتا پانی پتھر میں بھی سوراخ کردیتا ہے۔ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا [الإسراء: 41]
7۔یہ آپ کی باتیں کان لگاکر سنتے پھر آپس میں مشورے کرتے اور آپ ﷺ کوساحر اور جادوگر کہاکرتے ۔کیا جادو ایسا ہوتا ہے؟جادوگر ایسے بےداغ کردار کے مالک ہوتے ہیں؟جادو تو ایک علم وفن ہےجس میں شیاطین سے مدد لی جاتی ہے، آپﷺ تو شیاطین کے دشمن تھےنہ کے ان کے یار! { نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَى إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا} [الإسراء: 47]
8۔کہتے تھے مرنے کے بعد انسان کی ہڈیاں گل سڑجاتی ہیں تویہ دوبارہ کیسے زندہ ہوسکتے ہیں؟جواب دیاگیا کہ ہڈیاں کیاہیں؟ اگر انسان پتھر یالوہا بن جائے تب بھی اللہ تعالی اس کی روح اس میں لوٹائیں گے اور مردے دوبارہ زندہ ہوں گے۔جب اللہ پہلی بار پیدا کرسکتا ہے تو اسی کودوبارہ پیدا کرنا کون سی مشکل بات ہے؟{وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا} [الإسراء: 49]
9۔کہتے تھے کہ زقوم کادرخت جہنم میں کیسے ہوسکتا ہے؟ کیونکہ آگ میں لکڑی جل جاتی ہے ، جہنم آگ ہے وہاں درخت کا کیاکام؟جواب دیا گیا کہ آخرت کے احوال دنیا میں کہاں سمجھ آسکتے ہیں؟بس اتنا سمجھ لو کہ جو ذات آگ کے جاندار پیدا کرسکتی ہے وہ ذات آگ میں درخت بھی قائم رکھ سکتی ہے۔ { وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ} [الإسراء: 60]
10۔کہتے تھے یہ قرآن آپ کی ذاتی تصنیف ہے ۔فرمایا اگر یہ انسانی کام ہے تو تمہیں چیلنج ہے تمام انسان وجنات اور جس جس کو تم بلاسکتے ہوسب مل کر اس جیسی کتاب لادو! {قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا} [الإسراء: 88]
11۔ مختلف فرمائشی معجزات کامطالبہ کرتے رہتے تھے، مثلا: کہتے کہ مکہ کے پہاڑ ہٹادیے جائیں،یہاں ندیاں نہریں نکل آئیں، پرانے بزرگوں کو زندہ کردیا جائے ،نبی کے ساتھ سونے کا گھر ہونا چاہیے، نبی کے آگے پیچھے فرشتے نظر آنے چاہییں،آسمان میں ہماری نظروں کے سامنے چڑھیں وغیرہ۔
اس کاجواب دیا گیا کہ پہلے ہی بے شمار دلائل اور معجزات دکھائےجاچکے ہیں ۔اگر ان کے اندر حق کی سچی طلب ہوتی تو کب کے ایمان لے آئے ہوتے لیکن درحقیقت یہ ضد اور عناد میں مبتلا ہیں اس لیےمحض وقت گزاری کے لیے ایسی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں ، اگر انہیں یہ معجزات دکھادیے جائیں تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔دوسرے یہ کہ فرمائشی معجزات کے بارے میں اللہ تعالی کاقانون یہ ہے کہ اس کے بعد بھی انکار کیاجائے تو اللہ تعالی کاعذاب آنے میں تاخیر نہیں ہوتی جیسے قوم ثمود نے پہاڑ سے اونٹنی نکالنے کی فرمائش کی اور جب فرمائش پوری کردی گئی تو ماننے سے انکار کردیاجس پر فورا عذاب آگیا۔{وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (90) أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا (92) أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ }
12۔کہتے تھے کہ رسول فرشتوں میں سے کیوں نہیں آیا؟ جواب دیا کہ اگر یہاں زمین مین فرشتوں کی آبادی ہوتی تو یہاں بھی ضرور فرشتے ہی پیغمبر بن کر آتے لیکن ظاہر ہےیہاں انسان آباد ہیں اورانسانوں کارسول انسان ہی ہوگاکیونکہ معلم ومربی جنس ہی میں سے ہوتا ہے۔{قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا } [الإسراء: 95]
( ازگلدستہ قرآن)
Load/Hide Comments