ہوٹل کے روم میں سے کسی چیز کا ملنا۔

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته!

اگر کوئی گری ہوئی چیز ملتی ہے تو کیا اُس کے مالک کو پہنچانی چاہیے یا صدقہ کر دینی چاہئے راستہ میں سے پیسے ملتے ہیں تو میں صدقہ کر دیتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی اس کا ثواب اس کو مل جاۓ جس کی چیز ہے۔میرے شوہر ہوٹل میں کام کرتے ہیں اکثر ان کو کمرے سے چیزیں ملتی ہیں۔اکثر پیسے ملتے ہیں تو وہ بخشش(tip) ہوتی ہے وہ ہاؤس کیپنگ والوں کے لیے ہوتے ہیں۔ مینجر کی طرف سے بھی یہ حکم ہوتا ہے کہ جو کمرہ صاف کرنے جاتا ہےاُس پیسے پر اس کا حق ہوتا ہے ۔وہ کمرہ صاف کرنے جاتے ہیں تو کبھی پرس کبھی پرفیوم ملتا ہے تو وہ رکھ لیتے ہیں کیونکہ یہ اصول ہے لیکن اگر کوئی قیمتی چیز ملتی ہے جیسے سونے کا سیٹ یا نوٹوں کی گڈی تو وہ lost and fond میں جمع کردیےجاتےہیں۔ انھیں انگوٹھی زمین پر پڑی ملی تو انھوں نے لڑکی کو کہا کہ تم رکھ لو اُس نے کہا مجھے انگوٹھی بڑی ہوتی ہے تم لے لو،تو وہ گھر لے کر آگئے اور کہا پہننا ہے تو پہن لو ورنہ پھینک دو ،وہ انگوٹھی سادھی سی لگ رہی تھی میں نے کہا کیوں لے کر آگئے پھینک دیتے ۔میں نے آن لائن سرچ کی تو (channel )شينل والوں کی تھی اور3000£کی تھی اب انھوں نے انتظار کیا کہ مالک کا فون آجائے کہ وہ اپنی اتنی مہنگی چیز چھوڑ کر گئے ہیں لیکن سات دن تک کوئی کال نہیں آئی اب مجھے بتا دیں کہ میں کیا کروں اس کو استعمال کرسکتی ہوں یا نہیں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته!

واضح رہے کہ اگر کوئی گری ہوئی چیز راستے میں مل جائے تو اگر اس کے مالک کا معلوم ہو تو اس کے مالک تک پہنچانا ضروری ہے۔اور مالک کا پتہ نہ ہو اور چھوڑ دینے کی صورت میں ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے اٹھا لیا جائے۔ اس صورت میں یہ چیز لقطہ کے حکم میں آجاۓ گی جس کے بارے میں ضروری ہے کہ ہر ممکن کوشش کرکے مالک تک پہنچائی جاۓ اور اس چیز کے گم ہونے کا اعلان کیا جاۓ۔ مالک کے نہ ملنے کی صورت میں اس وقت تک اپنے پاس رکھی جائے جب تک کہ غالب گمان ہو کہ مالک اسے تلاش کررہا ہوگا۔جب غالب گمان ہوکہ اب مالک اسے تلاش نہ کررہا ہوگا تو پھر اسے صدقہ کردیا جائے اور اگر لقطہ اٹھانے والا خود (زکوۃ کامستحق )غریب ہے تو وہ بھی استعمال کر سکتا ہے ۔لیکن اگر اس چیز کا اصل مالک آ جائے تو وہ چیز یا اس کا تاوان ادا کرنا ہو گا۔

لہذا صورت مسئولہ میں انگوٹھی کی اطلاع ہوٹل کے lost and found والے عملے کو دے دیں اگر مالک کا پتہ نہ ملے تو مذکورہ تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس چیز کو صدقہ کر دیں یا اگر آپ مستحق ہیں تو پھر خود بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1۔هِيَ مَالٌ يُوجَدُ فِي الطَّرِيقِ وَلَا يُعْرَفُ لَهُ مَالِكٌ بِعَيْنِهِ، كَذَا فِي الْكَافِي الْتِقَاطُ اللُّقَطَةِ عَلَى نَوْعَيْنِ: نَوْعٌ مِنْ ذَلِكَ يُفْتَرَضُ وَهُوَ مَا إذَا خَافَ ضَيَاعَهَا، وَنَوْعٌ مِنْ ذَلِكَ لَا يُفْتَرَضُ وَهُوَ مَا إذَا لَمْ يَخَفْ ضَيَاعَهَا وَلَكِنْ يُبَاحُ أَخْذُهَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْعُلَمَاءُ وَاخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ أَنَّ التَّرْكَ أَفْضَلُ أَوْ الرَّفْعَ؟ ظَاهِرُ مَذْهَبِ أَصْحَابِنَا – رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى – أَنَّ الرَّفْعَ أَفْضَلُ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ سَوَاءٌ كَانَتْ اللُّقَطَةُ دَرَاهِمَ أَوْ دَنَانِيرَ أَوْ عُرُوضًا أَوْ شَاةً أَوْ حِمَارًا أَوْ بَغْلًا أَوْ فَرَسًا أَوْ إبِلًا وَهَذَا إذَا كَانَ فِي الصَّحْرَاءِ فَإِنْ كَانَ فِي الْقَرْيَةِ فَتَرْكُ الدَّابَّةِ أَفْضَل۔

‏‎الفتاوى الهندية کتاب القطہ (2/ 289)

2۔”( وعرف ) أي نادى عليها حيث وجدها وفي المجامع ( إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة ) والثمار ( كانت أمانة ) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي وأقره المصنف وغيره ( ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة ) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة ( فينتفع) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية و في القنية لو رجا وجود المالك وجب الإيصاء ( فإن جاء مالكها ) بعد التصدق ( خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها ( أو تضمينه )“۔

( الدر المختار ، کتاب اللقطة 4 / 278)

فقط

واللہ اعلم بالصواب

18 شعبان 1445 ھ

28 فروری 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں