کیا بیماری کو متعدی کہنا درست ہے؟

سوال: کیا یہ یقین رکھنا اور ایسا کہنا اور عمل کرنا کفر ہے؟ کہ کسی کی بیماری کسی کو لگ جاتی ہے؟ اور یہ جملہ کہنا بھی کہ فلاں بچی اسکول سے وائرس لے کر آٸی اور اس نے مجھے بھی وائرس لگا دیا؟ مطلب یہ کہنا کہ اپنی بیماری مجھے لگادی ۔ یہ جملہ کفریہ ہے؟ کیا یہ کہنے سے اسلام سے خارج ہوجائنگے اور نکاح ٹوٹ جائگا اور حج بھی دوبارہ کرنا ہوگا؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ احکم الحاکمین ذات نے اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت کائناتِ عالم میں بہت سی چیزوں کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، تاہم اس کے مؤثر ہونے کو اللہ رب العزت نے اپنے حکم کا پابند بنایا ہے۔
اگر کوئی شخص اس بات پریقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات مسبب الاسباب ہے البتہ سبب کے درجہ میں بیماری کے اثرات ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتے ہیں اور اس عقیدہ کے تحت وہ احتیاط کرے یا اس طرح کی بات اس کی زبان سے نکلے تو یہ کفر نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ان ابا هريرة ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا عدوى ولا طيرة ولا صفر ولا هامة“
(مسلم شریف: 5789)
ترجمہ: کسی سے کوئی مرض خود بخود نہیں چمٹتا، نہ بد فالی کی کوئی حقیقت ہے نہ صفر کی نحوست کی اور نہ کھوپڑی سے الونکلنے کی۔

2۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 4/ 1711)
” فر من المجذوم فرارك من الأسد “ فإنه محمول على بيان الجواز أو لئلا يقع شيء منه بخلق الله فينسب إلى الإعداء بالطبع ليقع في محذور اعتقاد التأثير لغير الله، وقد عمل النبي صلى الله عليه وسلم بالأمرين ليشير إلى الجوابين عن قضية الحديث فإنه جاءه مجذوم فأكل معه قائلاً: بسم الله ثقةً بالله وتوكلاً عليه، وجاءه مجذوم آخر ليبايعه فلم يمد إليه يده وقال: قدبايعت، فأولاً نظر إلى المسبب وثانيًا نظر إلى السبب في مقام الفرق وبين أن كلاًّ من المقامين حق، نعم الأفضل لمن غلب عليه التوكل أو وصل إلى مقام الجمع هو الأول والثاني لغيره“
فقط۔ واللہ اعلم بالصواب
٧شعبان ١٤٤٥ھ
18 فروری 2024

اپنا تبصرہ بھیجیں