زکوۃ سے متعلق اہم مسائل قسط:3
بینک میں جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ:
بینک میں جمع کردہ رقوم پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، سال گزرنے پر دیگر اموال کے ساتھ ان کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے، فکسڈ ڈپازٹ کے علاوہ دیگر اکاؤنٹس جن میں ہر وقت رقم نکلوانے کا اختیار ہوتا ہے ان میں وصولی کا انتظار نہ کرے۔ ( ماخوذ از أحسن الفتاویٰ : ۴/۳۱۱ ـ ۳۳۴ )
فکسڈ ڈپازٹ پر زکوٰۃ
بینک میں رقم جمع کرانے کا ایک طریقہ فکسڈ ڈپازٹ ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ بینک میں ایک مخصوص مدت تین، پانچ یا سات سال کے لیے رقم اس شرط پر رکھتے ہیں کہ مدت مقررہ سے پہلے یہ رقم ناقابل واپسی ہوتی ہے، اس مدت کی تکمیل پر یہ رقم ایک مقررہ شرح سود کے ساتھ واپس مل جاتی ہے، اس پر جو سود ملتا ہے وہ تو ناجائز اور حرام ہونے کی وجہ سے بلا نیت ِ ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے، اصل جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ واجب ہے لیکن اس کی ادائیگی وصولی کے ساتھ ہی واجب ہو گی،وصول ہونے سے پہلے ادائیگی واجب نہیں،لیکن اگر وصولی سے پہلے کسی نے زکوٰۃ ادا کر دی تو بھی ادا ہو جائے گی۔ ( ماخوذ از جدید فقہی مسائل : ۱۳۲ )
پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ
پراویڈنٹ فنڈ میں جو رقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اور اس پر ماہانہ یا سالانہ جو اضافہ کیا جاتا ہے، یہ سب ملازم کی خدمت کا وہ معاوضہ ہے جو ابھی اس کے قبضہ میں نہیں آیا، لہٰذا وہ محکمہ کے ذمے ملازم کا قرض ہے۔ زکوٰۃ کے معاملہ میں فقہا کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے قرض کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے بعض پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور بعض پر نہیں ہوتی۔ وصول ہونے کے بعد ضابطہ کے مطابق زکوٰۃ واجب ہو گی، جس کی تفصیل یہ ہے:
1-ملازم اگر پہلے سے صاحب ِ نصاب نہیں تھا مگر اس رقم کے ملنے سے صاحب ِ نصاب ہو گیا تو وصول ہونے کے وقت سے ایک قمری سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو گی بشرطیکہ اس وقت تک یہ شخص صاحب ِ نصاب رہے، اگر سال پورا ہونے سے پہلے مال خرچ ہو کر اتنا کم رہ گیا کہ صاحب ِ نصاب نہ رہاتو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی اور اگر خرچ یا ضائع ہونے کے باوجود سال کے آخر تک مال بقدرِ نصاب بچا رہا تو جتنا باقی بچ گیا صرف اس کی زکوٰۃ واجب ہو گی، جو خرچ ہو گیا اس کی واجب نہ ہو گی۔
2- اگر یہ ملازم پہلے سے صاحب ِ نصاب تھا تو فنڈ کی رقم چاہے مقدارِ نصاب سے کم ملے یا زیادہ، اس کا سال علیحدہ شمار نہ ہو گا، بلکہ جو مال پہلے سے اس کے پاس تھا جب اس کا سال پورا ہو گا، یعنی پہلے سے موجود نصاب کی زکوٰۃ نکالنے کی تاریخ آئے گی تو فنڈ کی وصول شدہ رقم کی زکوٰۃ بھی اسی وقت واجب ہوجائے گی چاہے اس نئی رقم پر ایک دن ہی گزرا ہو۔
مذکورہ بالا تفصیل اس وقت ہے جب کہ ملازم نے اپنے فنڈ کی رقم کسی دوسرے شخص یا کمپنی کی طرف منتقل نہ کروائی ہو، اگر اس نے یہ رقم کسی شخص، بینک، بیمہ کمپنی یا کسی اور تجارتی کمپنی یا ملازمین کے نمائندوں پر مشتمل بورڈ کی طرف منتقل کروادی ہو تویہ ایسا ہے جیسے خود اپنے قبضہ میں لے لی ہو،کیونکہ اس طرح وہ شخص یا کمپنی اس ملازم کی وکیل ہو گئی اور وکیل کا قبضہ شرعاً مؤکل کے قبضہ کے حکم میں ہے، لہٰذا جب سے یہ رقم اس کمپنی کی طرف منتقل ہو ئی اس وقت سے اس پر بالاتفاق زکوٰۃ واجب ہو گی اور ہر سال کی زکوٰۃ مذکورہ بالا ضابطہ کے مطابق لازم ہو گی۔ تجارتی کمپنی کو نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر دینے کی صورت میں جب سے اس پر نفع ملنا شروع ہو گا اس وقت سے نفع پر بھی زکوٰۃ واجب ہو گی۔بیمہ کمپنی کو یا کسی سودی کاروبار کرنے والی کمپنی کو دینے کی صورت میں نفع حرام ہے۔