تدفین اور قبر سے متعلق مسائل
میت کو دفن کرنا فرض کفایہ ہے، جس طرح اس کا غسل اور نمازفرضِ کفایہ ہے۔جب نمازِجنازہ سے فراغت ہوجائے تو فوراً اس کو دفن کرنے کے لیے قبر کی طرف لے جانا چاہیے۔
اگر کوئی شخص بحری جہاز وغیرہ میں مر جائے اور زمین وہاں سے اتنی زیادہ دور ہو کہ وہاں پہنچنے تک لاش کے خراب ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس وقت چاہیے کہ غسل، تکفین اور نماز سے فارغ ہوکر اس کو سمندر میں ڈال دیں۔ اگر کنارہ اس قدر دور نہ ہو اور وہاں جلدی اترنے کی امید ہو تو اس لاش کو رہنے دیں اور کنارہ پر پہنچ کر زمین میں دفن کردیں۔
قبر سے متعلق مسائل
میت کی قبر کم سے کم اس کے آدھے قد کے برابر کھودی جائے، قد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور قبر کی لمبائی میت کے قد کے برابرہو۔بغلی قبر صندوقی قبر کے بنسبت بہتر ہے، البتہ اگر زمین بہت زیادہ نرم ہو نے کی وجہ سے قبر کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہو تو پھر بغلی قبر نہ کھودی جائے۔
یہ بھی جائز ہے کہ اگر بغلی قبر نہ کھودی جاسکے تومیت کو کسی صندوق میں رکھ کر دفن کردیں، چاہے صندوق لکڑی کا ہو یا پتھر کا یا لوہے کا، مگر بہتر یہ ہے کہ اس صندوق میں مٹی بچھادی جائے۔
جب قبر تیار ہوجائے تو میت کوقبلے کی طرف سے قبر میں اتار دیں، اس کی صورت یہ ہے کہ جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھا جائے اور اتارنے والے قبلہ رو کھڑے ہوں اور میت کو اٹھاکر قبر میں رکھ دیں۔
اگر میت کو قبر میں قبلہ رُخ کرنا یاد نہ رہے اور دفن کرنے اور مٹی ڈال دینے کے بعد یاد آئے تو پھر اس کو قبلہ رُخ کرنے کے لیے اس کی قبر کھولنا جائز نہیں،البتہ اگر صرف تختے رکھے گئے ہوں، مٹی نہ ڈالی گئی ہو تو تختے ہٹاکر اس کو قبلہ رُخ کردینا چاہیے۔
قبر میں اتارنے والوں کا طاق یا جفت ہونا مسنون نہیں۔ نبی کریمﷺکوقبر مقدس میں چار آدمیوں نے اتارا تھا۔
قبر میں رکھتے وقت “بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ” کہنا مستحب ہے۔
میت کو قبر میں رکھ کر دائیں پہلو پر اس کو قبلہ رُخ کردینا مسنون ہے۔
قبر میں رکھنے کے بعد کفن کی وہ گرہ جو کفن کے کھل جانے کے خوف سے باندھی گئی تھی کھول دی جائے۔اس کے بعد کچی اینٹوں یاسرکنڈے سے بند کردیں۔ پختہ اینٹوں یا لکڑی کے تختوں سے بند کرنا مکروہ ہے،البتہ اگر زمین زیادہ نرم ہونے کی وجہ سے قبر کے بیٹھ جانے کااندیشہ ہو تو پختہ اینٹ یا لکڑی کے تختے رکھ دینا یاصندوق میں رکھنا بھی جائز ہے۔
عورت کو قبر میں پردہ کرکے رکھنا مستحب ہے اور اگر میت کا بدن کھل جانے کا اندیشہ ہو تو پھر پردہ کرنا واجب ہے۔
مردوں کے دفن کے وقت قبر پر پردہ نہ کرنا چاہیے، البتہ اگر عذر ہو، مثلاً: بارش برس رہی ہو یا برف گررہی ہو یا دھوپ سخت ہو تو پھر جائز ہے۔
جب میت کو قبر میں رکھ دیں تو جتنی مٹی اس کی قبر سے نکلی ہو وہ ساری اس پر ڈال دیں، اس سے زیادہ مٹی ڈالنا مکروہ ہے بشرطیکہ وہ زائد مٹی اتنی زیادہ ہو کہ اس کی وجہ سے قبر ایک بالشت سے بہت زیادہ اونچی ہوجائے اور اگر تھوڑی سی ہو تو پھرزائد مٹی ڈالنا مکروہ نہیں۔
سرہانے کی طرف سے سے قبرپر مٹی ڈالنے کی ابتدا کرنا مستحب ہے، ہر شخص اپنے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر قبر پر ڈال دے اور پہلی مرتبہ پڑھے” مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ”دوسری مرتبہ”وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ”اورتیسری مرتبہ “وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تاَرَۃً اُخْرٰی” ۔
دفن کے بعد تھوڑی دیر تک قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا یا قرآن مجید پڑھ کر اس کا ثواب اس کو پہنچانا مستحب ہے۔
مٹی ڈال دینے کے بعد قبر پر پانی چھڑک دینا مستحب ہے۔
کسی میت کو چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مکان کے اندر دفن نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ بات انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے۔
قبر کو مربع بنانا مکروہ ہے، مستحب یہ ہے کہ قبر اونٹ کی کوہان کی طرح اٹھی ہوئی بنائی جائے، اس کی بلندی ایک بالشت یا اس سے کچھ زیادہ ہونی چاہیے۔
قبر کا ایک بالشت سے بہت زیادہ بلند کرنا مکروہِ تحریمی ہے، قبر پر پلستر کرنا یا اس پر گارے سے لیپنا مکروہ ہے۔
دفن کرنے کے بعدزینت کی غرض سے قبر پر عمارت، گنبد یا قبے وغیرہ کی طرح کوئی چیز بناناحرام ہے اور مضبوطی کی نیت سے مکروہ ہے۔
میت کی قبر پریادداشت کے طور پر کوئی چیزلکھنا جائز ہے بشرطیکہ کوئی ضرورت ہو، ورنہ جائز نہیں، لیکن اس زمانہ میں چونکہ عوام نے اپنے عقائد اور اعمال کو بہت خراب کرلیا ہے اور مفاسد کی وجہ سے مباح (جائز) بھی ناجائز ہوجاتا ہے اس لیے ایسے امور بالکل ناجائز ہوں گے اور جوجو ضرورتیں لوگ بیان کرتے ہیں وہ سب نفس کے بہانے ہیں۔ اس بات کو وہ دل میں خود بھی سمجھتے ہیں۔
میت کو قبر میں رکھتے وقت اذان کہنا بدعت ہے۔
جب قبرپر مٹی ڈال دی جائے تو اس کے بعد میت کا قبر سے نکالنا جائز نہیں،البتہ اگر کسی آدمی کی حق تلفی ہوتی ہو تو نکالنا جائز ہے۔ مثلاً: جس زمین میں میت کو دفن کیا ہے وہ کسی دوسرے کی ملکیت ہو اور وہ اس کے دفن پر راضی نہ ہو۔یا کسی شخص کا مال قبر میں رہ گیا ہو۔