امام کس کو بنایا جائے ؟
مقتدیوں کو چاہیے کہ اگرتمام حاضرین امامت کی اہلیت میں برابر ہوں تو غلبہ رائے پر عمل کریں یعنی جس شخص کی طرف زیادہ لوگوں کا رحجان ہو اسی کو امام بنائیں۔ اگر کسی ایسے شخص کے ہوتے ہوئے جو امامت کے زیادہ لائق ہے کسی ایسے شخص کو امام بنادیں گے جو اس سے کم اہلیت رکھتا ہے تو سنت کی خلاف ورزی کرنے والے شمار ہوں گے۔
امامت کا سب سے زیادہ حق اس شخص کو ہے جو نماز کے مسائل خوب جانتا ہو، بشرطیکہ ظاہرا ًگناہ کی باتوں میں مبتلا نہ ہو اور جس قدر قراء ت مسنون ہے اسے یاد ہو اور قرآن صحیح پڑھتا ہو۔ پھر وہ شخص جو قرآن مجید اچھا یعنی قرأت و تجویدکے قواعد کے مطابق پڑھتا ہو ۔پھر وہ شخص جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، پھر وہ شخص جو سب سے زیادہ عمر رکھتا ہو، پھر وہ شخص جو سب میں زیادہ خوش اخلاق ہو، پھر وہ شخص جو سب میں زیادہ خوبصورت ہو، پھر وہ شخص جو سب میں زیادہ شریف النسب ہو، پھر وہ جس کی آواز سب سے عمدہ ہو، پھر وہ شخص جو عمدہ لباس پہنے ہوئے ہو، پھر وہ شخص جو مقیم ہو (مسافر نہ ہو)،پھر وہ شخص جس نے حدث اصغر سے تیمم کیا ہو بہ نسبت اس کے جس نے حدث اکبر سے تیمم کیا ہو اور بعض کے نزدیک حدث اکبر سے تیمم کرنے والا زیادہ حقدارہے اور جس شخص میں دو وصف پائے جائیں وہ اس شخص سے زیادہ حقدار ہے جس میں ایک ہی وصف پایا جاتا ہو، مثلاً: وہ شخص جو نماز کے مسائل بھی جانتا ہو، قرآن مجید بھی اچھا پڑھتا ہو وہ اس شخص سے زیادہ مستحق ہے جو صرف نماز کے مسائل جانتا ہو اور قرآن مجید اچھا نہ پڑھتا ہو۔
اگر کسی کے گھر میں جماعت کی جائے تو جس کا گھر ہے وہ امامت کا زیادہ حقدار ہے، اس کے بعد وہ شخص جس کو وہ امام بنادے، البتہ اگر گھر کا مالک بالکل جاہل ہو اور دوسرے لوگ مسائل سے واقف ہوں تو پھر ان ہی کو حق حاصل ہوگا۔
جس مسجد میں کوئی امام مقرر ہو، اس مسجد میں اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو امامت کا حق نہیں،البتہ اگر وہ کسی دوسرے کو امام بنادے تو پھر حرج نہیں۔قاضی یعنی حاکم شرع یا بادشاہِ اسلام کے ہوتے ہوئے دوسرے کو امامت کا حق نہیں۔