(باعتبار دفاع واقدام)
نمبرشمار نام تعریف حکم
1 جہاد اقدامی اسلامی حکومت خود سے اقدام کرکے حملہ کرے فرض کفایہ
2 جہاد دفاعی دشمن مسلمانوں یاکسی اسلامی ملک پر حملہ کردے دشمن کوجواب دینے کے لیے جتنے لوگ کافی ہوں ان پر جہاد فرض عین ہوجائےگا، اگر ملک کی فوج کافی نہ ہو تو عام لوگوں میں سے جو لڑسکتے ہوں ان پر بھی فرض ہوجائےگا علی ہذا
(باعتبار طریقہ وشمولیت)
نمبرشمار نام تعریف حکم
1 جہاد بالنفس محاذ پر عملی جہاد میں حصہ لینا کبھی فرض کفایہ کبھی فرض عین
2 جہادبالمال فنڈنگ کرنا حسب حیثیت حصہ ملانا ضروری ہے
3 جہاد بالقلم جہادی لٹریچر مرتب کرنا لکھنے کی صلاحیت ہو تو ضرور لکھے
4 جہاد باللسان جہادکی ترغیب زبان سے دینا حسب استعداد ترغیب دے
جہادکاطریقہ کار:
1-پہلے اسلام کی دعوت دینی چاہیے۔اگر دعوت پہلے نہ پہنچی ہو تو دعوت دینا واجب ہے ورنہ مستحب۔
2-نہ مانیں تو جزیے کی پیشکش کریں۔
3-نہ مانیں تب حملہ کریں۔صرف مقاتلین سے لڑیں، عورتوں، بچوں ، معذوروں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھائیں۔عہد نہ توڑیں، مثلہ نہ کریں۔مال غنیمت میں خیانت نہ کریں۔میدان جنگ سے نہ بھاگیں۔امیر کی اطاعت کریں۔
غزوات
مدنی زندگی میں بڑے معرکوں میں پہلابڑا معرکہ غزوہ بدر ہے۔ جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح عطا فرمائی اور کفار قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔اس شکست کا بدلہ لینے کے لیےاگلے سال انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا اور غزوۂ احد پیش آیا جس میں مسلمانوں کو عارضی پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی۔ ان دونوں غزوات کا ذکر اس سورت میں آیا ہے اوران سے فتح وشکست کے اسباب اور ان سےمتعلق مسائل پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں ۔
بدر
یادگار اورمشہور ِزمانہ معرکہ ہے۔منگل17رمضان2ہجری کوپیش آیا۔ ابوسفیان کےتجارتی قافلے کاتعاقب مقصود تھا لیکن وہ نکل گیا اور قریش کا بڑالشکر ابوجہل کی سربراہی میں مقابلے کے لیے آگیا۔ صحابہ کرام کی تعداد313تھی جبکہ کفار کی تعداد 1000۔اس معرکۂ حق وباطل میں 14 مسلمان شہید ہوئے جبکہ کفار کوبھاری نقصان اٹھاناپڑا۔ان کے 70 سردار مارے گئےجس میں ابوجہل اور امیہ بن خلف بھی شامل ہیں اور ستر قید ہوئےجنہیں بعد میں فدیہ لے کر چھوڑاگیا۔{وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ} [آل عمران: 123]
احد:
ہفتہ 2شوال3ہجری کوپیش آیا۔خواب کے ذریعے اس حادثے کااشارہ دے دیا گیاتھا۔دراصل کفار مکہ نے بدرکی شکست کابدلہ لینے کی مکمل تیاری کی تھی،حالات کےمطابق مدینے میں رہ کرلڑنا مفیدتھا لیکن بعض نوجوان صحابہ کرام کی پرزور خواہش پر باہر نکلناپڑا۔شروع میں فتح ہوئی{وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ } [آل عمران: 121] لیکن پھرامیر کی نافرمانی ہوئی۔نبی پاک ﷺ کوصدمہ پہنچا ۔پھرشہادت کارتبہ بھی دینا تھا،مومن اور منافق کو الگ کرنا بھی مقصد تھااس لیے شکست ہوئی۔{إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ } [آل عمران: 140]
اس جنگ میں کفارکی تعداد3000 تھی جن میں سے30 واصل جہنم ہوئے جبکہ مسلمانوں کی تعدادشروع میں 1000تھی،بعد میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے سپاہی لے کر الگ ہوگیا تو 700 کی تعداد رہ گئی۔جن میں70شہیدہوئے۔حضرت حمزہ، مصعب بن عمیر، انس بن نضر ،حضرت حذیفہ بن یمان کے والد یمان،اور حضرت جابر کے والد عبداللہ بھی شہیدہوئے۔
اس جنگ میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ شریک جہاد رہیں۔ پانی بھر بھرکرلاتیں اور زخمیوں کوپلاتیں۔ان میں سےحضرت فاطمہ،حضرت عائشہ، ام سلیم اور ام سلیط کابخاری میں ذکر آیاہے ۔
ولقد عفااللہ عنھم کاجملہ نص صریح ہے کہ اللہ تعالی نے اس جنگ میں پیش آنے والی بھگدڑ کونص قطعی سے معاف کردیاہے لہذا اسے لے کر صحابۂ کرام کےخلاف ہرزہ سرائی بالکل بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ اذھمت طائفتان سے مرادبنوسلمہ اور بنوحارثہ ہیں۔
حمراء الاسد:
شوال 3ہجری میں پیش آیا۔یہ احد ہی کاتتمہ ہے۔ میدان احدکی جیت کے بعد قریش جب مدینہ سے آگے نکلے تو خیال آیا کہ کام ناتمام کیاہے ،رہی سہی کسر پوری کردینی چاہیے،دوبارہ حملے کااراد بنا،حضورﷺ کواطلاع ہوئی تو فورا لشکر کشی کا حکم فرمائی، فرمایا:احد کے شرکا ہی شریک ہوں، حمراء الاسد تک پہنچے توقریش کو آپ کے آنے کی اطلاع ملی ،ان پر رعب طاری ہوگیا اور وہیں سے مکہ چل دیے۔{الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ}
امراض یہود
اس پارے میں مختلف مقامات پرچندسابقہ امراض کے ساتھ یہودیوں کی ان بیماریوں کابھی تذکرہ ہواہے:
1۔یہودی مسلمانوں کو غلط انفارمیشن دیتے ہیں اور مس گائیڈ کرتے ہیں۔{لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا }
2۔مسلمانوں کواپنے قول و فعل سے ایذائیں دیتے رہتے ہیں۔{ لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ} [آل عمران: 111]{وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا } [آل عمران: 186]
3۔ رشوت لے کر غلط مسئلہ بتاتے ہیں۔{فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا} [آل عمران: 187]
4۔ان کے کفرونافرمانی کی وجہ سے ان پر ذلت ورسوائی کی مہر تاابد لگادی گئی ہے۔یہ اس ذلت سے اسی وقت بچ سکتے ہیں کہ دو باتوں میں سے کسی ایک بات کومان لیں یا تو اسلام قبول کرلیں یاپھر لوگوں میں سے اپنےمضبوط حلیف پیداکرلیں۔{ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ} [آل عمران: 112]
5۔سامنے کچھ کہتے ہیں، پیٹھ پیچھے کچھ کرتے ہیں۔مسلمانوں کوکبھی پسند نہین کرتے۔مسلمانوں کوتکلیف پہنچنے سے انہیں راحت ملتی ہے۔مسلمانوں کوتکلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَاعَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ۔۔۔ هَاأَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۔۔۔إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا } [آل عمران: 118 – 120]