سورۃ البقرۃ میں گھریلوزندگی کے لیے ہدایات

نکاح:
نکاح مسلمان سے کرنا چاہیے۔مسلمان عورت کے لیےکسی بھی کافر یا مشرک سے نکاح درست نہیں۔جبکہ مسلمان مرد کے لیے کافروں میں سے صرف اہل کتاب عورت سے نکاح درست ہے باقی کسی مشرک کافر عورت سے نکاح درست نہیں۔{وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ} [البقرة: 221]
رہن سہن:
1۔میاں بیوی میں بہت محبت ہونی چاہیے۔{هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ} [البقرة: 187]
2۔میاں بیوی کو ایک دوسرے کے رازدوسروں کو نہیں بتانے چاہییں۔(ایضا)
3۔صدقہ وخیرات اور ہدایا کے زیادہ حق دار قریبی رشتہ دار ہیں۔(مرسابقا)
4۔اپنے گھروالوں کے فائدے کے لیے وصیت لکھ لینی چاہیے۔ایساکرنامستحب ہے؛ تاکہ بعد میں ان کے درمیان تنازع نہ ہو۔{كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ} [البقرة: 180]
5۔یتیم بچے آپ کی کفالت میں آئیں تو ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا چاہیے اور ان کے مال کے ساتھ مصلحت اور خیرخواہی والا معاملہ کرنا چاہیے۔وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ} [البقرة: 220]
جنسی تعلقات:
1۔حالت حیض میں بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنا درست نہیں، جب تک پاک نہ ہوجائے۔{وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ [البقرة: 222]
2۔جنسی تعلق آگے والی شرمگاہ میں درست ہے چاہے طریقہ کوئی سا بھی ہو۔پچھلی شرمگاہ میں جماع درست نہیں۔ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ} [البقرة: 222] { نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ} [البقرة: 223]
اولاد کا حصول:
1۔بیوی سے ہم بستری کا مقصدجیسےپاک دامنی کاحصول ہے وہاں اولاد کی طلب بھی ایک مقصد ہونا چاہیے۔ {فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ} [البقرة: 187]نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ} [البقرة: 223]
2۔حمل ضائع کروانا بغیر عذر کے جائز نہیں ، بیوی سے ہم بستری اولاد طلب کرنے کی نیت سے کرنا ،باعث ثواب ہے۔(ایضا)
ایلاء:
اگر بیوی سےقسم کھاکر یہ کہہ دیا کہ میں تیرے قریب نہیں آؤں گاتواگر چار ماہ تک قریب نہیں گیا تو ایک طلاق بائن ہوجائے گی ،اگر قریب چلاگیا تو قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور نکاح کا تعلق قائم رہے گا۔{ لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [البقرة: 226، 227]
طلاق:
1۔صاف لفظوں میں طلاق ایک یا دو دی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہےلیکن تیسری طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا جب تک درست طریقے سے حلالہ نہ ہوجائے۔{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ } [البقرة: 229] {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 230]
2۔طلاق کو مذاق نہ بنایا جائے، بات بات پر طلاق کی دھمکیاں دینا، تین طلاقیں ایک ساتھ دینا یا کئی کئی طلاقیں دینا یہ سب طلاق کے ساتھ کھلوا ڑ کرنا ہے۔{وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا } [البقرة: 231]
3۔طلاق کے بعد عورت دوبارہ اسی شوہر سے نکاح کرنا چاہےتو لڑکی کے گھروالوں کو اس میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ {وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ} [البقرة: 232]
خلع:
اگر میاں بیوی میں نباہ بہت مشکل ہوجائے اور مرد طلاق بھی نہ دے تو عورت مال کے عوض خلع کی پیشکش کرسکتی ہے۔ اگر شوہر نے پیشکش قبول کرلی تو طلاق بائن پڑجائے گی اور عدت گزارکر بیوی آزاد ہوجائے گیوَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ}
مہر:
ویسے تو عور ت کو نکاح کے بعد اس کا طے شدہ مہر دینا ہوتا ہے،مہر طے نہ ہو تب بھی اس عورت کا خاندانی مہر دینا ہوتا ہے لیکن اگرکسی وجہ سے رخصتی سے پہلے ہی طلاق دینی پڑجائے تو مہرکی دوصورتیں ہیں :
1۔ اگر مہر طے ہوا تھا تو آدھا مہر دینا واجب ہوگا۔
2۔ اگر مہر طے نہیں ہوا تھا تو کپڑوں کا جوڑا دینا ہوگااس کومتعہ کہاگیاہے۔
یہ جوڑا (متعہ)مرد کی حیثیت کے مطابق دینا ہوگا۔البتہ اگر مرد خوشی سے مکمل مہر دے دے تو اچھی بات ہے،اسی طرح اگر عورت بالکل کچھ بھی نہ لے تو یہ بھی درست ہے لیکن مرد کے لیے بہتر ہے کہ وہ بہتر طریقہ اپنائےاورمکمل مہر دے۔
{لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (236) وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى} [البقرة: 236، 237]
عدت:
مطلقہ عورت پر عدت گزارنا فرض ہے۔{وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ} [البقرة: 228]
پھر مطلقہ کی عدت کتنی ہوگی؟اس کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں:
1-اگر حمل نہ ہو اور حیض بند نہ ہوا ہو تو عدت کی مدت تین حیض گزرنا ہے۔ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ [البقرة: 228]
2-اگرحمل سے ہو توعدت وضع حمل ہے۔{وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} [الطلاق: 4]
3-زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنابند ہوگیا ہو تو اس کی عدت تین ماہ ہیں۔{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ} [الطلاق: 4]
4-یہاں تک بیان کی گئی تفصیل طلاق کی عدت کے بارے میں ہے ۔اگر شوہر کا انتقال ہوجائےتو اس کی عدت کی تفصیل الگ ہے وہ یہ کہ اگر بیوی حمل سے نہ ہو تو عدت چارماہ دس دن ہے{وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا} [البقرة: 234]اور اگر حمل سے ہو توعدت وضع حمل ہے۔{وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} [الطلاق: 4]
دوران عدت عورت سےنکاح کرناتودور کی بات ہے نکاح کاپیغام دینابھی درست نہیں۔ البتہ اشاروں اشاروں میں پیغام پہنچادینا درست ہے۔{ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ} [البقرة: 235]
رضاعت:
بچوں کو دودھ پلانے کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال ہے۔ دوسال سے زیادہ رضاعت جائز نہیں۔دوسال سے کم میں دودھ چھڑانا مناسب سمجھیں تو چھڑاسکتے ہیں۔{وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ} [البقرة: 233]
نان نفقہ:
بچے اور اس کی ماں کےاخراجات کی ذمہ داری باپ پر ہے۔نکاح قائم ہوتو بیوی کا خرچہ نکاح کی وجہ سے شوہر پر واجب ہے اور نکاح ختم ہوچکا ہو تو عدت کاخرچ شوہر پر واجب ہوگا اور اس کے بعد ماں بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے اپنی جائزاجرت کا مطالبہ کرسکتی ہےجو صرف دودھ پلانے کی مدت تک ملے گی۔ دوسال بعد باپ پر صرف بچوں کا خرچ واجب ہوگا مطلقہ بیوی کا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں