اگروگ کواتارناممکن ہوتووضو کرتے وقت سر پرمسح کرنے کے لیے اِس وِگ کو اتار نا ضروری ہے ،ورنہ مسح ادا نہیں ہوگا۔اورغسل کرتے وقت اگراس وِگ کو پہن کرپورےسر کی جلد تک پانی نہ پہنچتا ہو تو غسل بھی نہیں ہوگالہذا ایسی صورت میں غسل کے لیے بھی اِسےاُتارنا ضروری ہوگا۔
تاہم اگر وضو اور غسل کےدوران وگ کا اتارنا ممکن نہ ہو تو اسے اتارنا ضرروری نہیں،اسی پر وضو اور غسل کرنا جائز ہے ۔البتہ یہ واضح رہے کہ انسان اور خنزیر کے بالوں سے بنی ہوئی وگ کا استعمال جائز نہیں اس لیے اجتناب کرنا ضروری ہے،ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کے بالوں سے بنی ہوئی وگ اور مصنوعی بالوں کی وگوں کا استعمال جائز ہے۔
الفتاوى الهندية (1/ 13)
والعجين في الظفر يمنع تمام الاغتسال والوسخ والدرن لا يمنع والقروي والمدني سواء والتراب والطين في الظفر لا يمنع والصرام والصباغ ما في ظفرهما يمنع تمام الاغتسال وقيل كل ذلك يجزيهم للحرج والضرورة، ومواضع الضرورة مستثناة عن قواعد الشرع. كذا في الظهيرية.
الدر المختار (1/ 154)
(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه به يفتى (ودرن ووسخ) عطف تفسير وكذا دهن ودسومة (وتراب) وطين ولو (في ظفر مطلقا) أي قرويا أو مدنيا في الأصح بخلاف نحو عجين.
وفي رد المحتار
(قوله: لم يصل الماء تحته) لأن الاحتراز عنه غير ممكن حلية. (قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللا بالضرورة.
وفي الفتاوى الهندية – (5 / 358)
ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها كذا في الاختيار شرح المختار ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئا من الوبر كذا في فتاوى قاضي خان.. واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
Load/Hide Comments