حضرت زبیربن العوّام رضی اللہ عنہ:دوسری قسط
تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
غزوات میں شرکت
ہجرتِ مدینہ کے بعدجلدہی جب غزوات کی نوبت آئی تورسول اللہ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ، ہرغزوے کے موقع پرحضرت زبیرؓرسول اللہ ﷺ کی زیرِِقیادت شریک رہے،بلکہ پیش پیش رہے،اورشجاعت وبہادری کے خوب جوہر دکھاتے رہے۔
غزوۂ اُحدکے موقع پرجب مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے تھے،اورہرطرف افراتفری پھیل گئی تھی،مسلمانوں کوبہت زیادہ پریشانی کاسامناکرناپڑاتھا،اوروہ سب شدیدصدمے کی کیفیت سے دوچارتھے،ایسے میں جنگ کے خاتمے کے فوری بعدمسلمانوں کویہ تشویش لاحق ہوئی کہ ہماری اس کیفیت اورشکست وریخت کومحسوس کرتے ہوئے ایسانہ ہوکہ مشرکینِ مکہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی خاطردوبارہ ہم پرحملہ آورہوجائیں،لہٰذااس چیزکے سدِباب کی غرض سے رسول اللہﷺنے اپنے اصحاب سے مشاورت اورغوروفکرکے بعدیہ فیصلہ فرمایاکہ مسلمانوں کاایک دستہ مشرکینِ مکہ کے تعاقب میں روانہ کردیاجائے تاکہ ان پرخوف طاری ہو جائے۔
ظاہرہے کہ اس وقت مسلمان جس جسمانی ونفسیاتی کیفیت سے دوچارتھے ،اورجس طرح انہیں شکست وریخت کاسامناتھا، سب زخموں سے چورتھے،ایسے میں دوبارہ اسی دشمن کے تعاقب میں نکل کھڑے ہونا،یہ بہت دل گردے کا،اورانتہائی جان جوکھوں کاکام تھا۔
لیکن بہرحال جب رسول اللہﷺنے اس چیزکافیصلہ فرماہی لیاتو سترمسلمانوں کاایک دستہ فوری طورپرتیارکیاگیااوراس کی قیادت کیلئے آپﷺ نے حضرت زبیربن العوامؓ کومنتخب فرمایا،چنانچہ یہ دستہ اُحدکے میدان سے ہی فوری طورپرمشرکینِ مکہ کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔
مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے مشرکین نے جب مسلمانوں کے اس دستے کواپنے تعاقب میں آتادیکھاتووہ مسلمانوں کی ہمت وشجاعت، بلندحوصلہ، اورعزیمت واستقامت دیکھ کرحیرت زدہ رہ گئے،ان میں سے کچھ لوگ یوں کہنے لگے کہ اتنی بڑی شکست کے بعد مسلمان کبھی ہمارے تعاقب کی جرأت نہیں کرسکتے،لہٰذاضرورانہیں کہیں سے کوئی بڑی بھرپورمددملی ہے ،لہٰذایہ کوئی تازہ دم دستہ ہمارے تعاقب میں چلے آرہاہے، اور عین ممکن ہے کہ اس کے پیچھے مزیددستے بھی چلے آرہے ہوں۔
الغرض مسلمانوں کے اس بروقت اقدام کی وجہ سے مشرکینِ مکہ پرمسلمانوں کی طرف سے خوف اوررعب طاری ہوگیا،جس کی وجہ سے انہوں نے یہ طے کیاکہ ہمیں راستے میں کہیں رکے بغیرجلدازجلدواپس مکہ پہنچناچاہئے،چنانچہ انہوں نے اپنی واپسی کی رفتار مزیدتیزکردی اورسیدھے مکہ پہنچ کرہی دم لیا،اوریوں مسلمان ان کے دوبارہ حملہ آور ہوجانے کے اندیشے سے محفوظ ومطمئن ہوگئے۔
غزوۂ احزاب (خندق)کے موقع پرجب مشرکینِ مکہ اوردیگربہت سے عرب قبائل مسلمانوں پرحملہ آورہونے کی غرض سے بہت بڑی تعدادمیں مدینہ آپہنچے تھے،کیفیت یہ تھی کہ جدھرنگاہ اٹھتی تھی بس چہارسودشمن کی فوج ہی نظرآتی تھی،اس بیرونی دشمن کی طرف سے لاحق خطرے کے علاوہ مزیدیہ کہ اندرونی خفیہ دشمنوں،بالخصوص یہودِمدینہ کے طاقتورقبیلے ’’بنوقُریظہ‘‘کی طرف سے مسلمانوں کوبہت زیادہ تشویش لاحق تھی،ایسی اطلاعات بھی مل رہی تھی کہ اس قبیلے نے مشرکینِ مکہ کے ساتھ خفیہ معاہدہ کررکھاہے، اور یہ منصوبہ تیارکیاگیاہے کہ جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوںپربھرپورحملہ کیاجا ئے گا، اورہرطرف خوب افراتفری ہوگی،تب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینہ شہرکے اندر یہ یہودی فتنہ برپاکریں گے،مسلمانوں کے گھروں پرحملے کریں گے ،ان کی املاک کولوٹیں گے ، نیزان کی عورتوں اوربچوں کوقتل کرڈالیں گے۔
یہودِمدینہ کے ان ناپاک عزائم سے رسول اللہﷺودیگرتمام مسلمان بخوبی آگاہ ہوچکے تھے، لہٰذااب یہ بہت نازک صورتِ حال تھی،ایک طرف خندق کے اُس پارصف آرا بیرونی دشمن کی طرف سے کسی بھی وقت بڑاحملہ متوقع تھا،دوسری طرف خودمدینہ شہرکے اندر اِن خفیہ دشمنوں کی طرف سے اچانک بڑی جارحیت کااندیشہ تھا ،ایسے میں مسلمانوں کو اپنے بیوی بچوں کے بارے میں بڑی تشویش لاحق تھی۔
اسی صورتِ حال کے درمیان ایک رات رسول اللہﷺنے اپنے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’ہے کوئی جومجھے بنوقریظہ کے بارے میں خبرلاکردے؟‘‘اس پرحضرت زبیرؓ نے عرض کیا’’اے اللہ کے رسول!میں حاضرہوں‘‘ْ۔چونکہ یہ کام بہت زیادہ خطرناک تھا،تنہاخفیہ طورپربنوقریظہ کے محلے میں جانا،وہاں صورتِ حال کاجائزہ لینا،کسی بھی طرح ان کے عزائم اورخفیہ منصوبوں کاکھوج لگانا،اورپھراسی طرح چھپتے چھپاتے وہاں سے واپس آنا،پھراتفاق یہ کہ وہ رات بھی انتہائی بھیانک تھی، اندھیرا بہت زیادہ تھا،ہرطرف تیزطوفانی ہواؤں کے جھکڑچل رہے تھے،سردی انتہائی عروج پر تھی۔
یہی وجہ تھی کہ ایسے میں یہ کام انجام دینابہت جان جوکھوں کاکام تھا،لہٰذارسول اللہﷺ کے استفسارپرجب حضرت زبیرؓنے آمادگی ظاہرکرتے ہوئے خودکواس کام کیلئے پیش کیا، تواس کے باوجودآپﷺ نے اپنایہی سوال دہرایا،دوسری باربھی وہاں موجودتمام افرادمیں سے حضرت زبیرؓنے ہی جواب دیاکہ ’’میں حاضرہوں‘‘۔اورپھرآپﷺ نے تیسری باریہی سوال دہرایا،تیسری باربھی حضرت زبیرؓ نے ہی جواب دیاکہ ’’میں حاضرہوں‘‘۔
رسول اللہﷺنے حضرت زبیربن العوامؓ کوضروری ہدایات دے کر بنوقریظہ کی جانب روانہ فرمایا،اوراس موقع پرآپﷺ نے یہ یادگارترین الفاظ ارشادفرمائے: لِکُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيٌّ وَحَوَارِیِّي الزُبَیر (بخاری)’’ہرنبی کاایک حواری ہواکرتاہے،اورمیرے حواری زبیرہیں‘‘۔
وقت کایہ سفرجاری رہا،حضرت زبیربن العوامؓ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری، کسبِ فیض،استفادہ، نیزآپﷺ کی خدمت وپاسبانی کایہ سلسلہ اسی طرح چلتارہا،آپﷺ کی طرف سے بھی زبیرؓکیلئے محبتوں اورشفقتوں کے مبارک سلسلے مسلسل جاری رہے،حتیٰ کہ اسی کیفیت میں آپﷺ کامبارک دورگذرگیا،آپﷺ تادمِ آخر ان سے انتہائی خوش اورمسرورومطمئن رہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)