حضرت طلحہ بن عبیداللہ التَیمی رضی اللہ عنہ :دوسری قسط
تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
غزوات میں شرکت
ہجرتِ مدینہ کے اگلے سال ہی جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگیں مسلط کرنے کاسلسلہ شروع ہوا،جس کے نتیجے میں حق وباطل کے درمیان پیش آنے والے اولین معرکہ یعنی غزوۂ بدرسے چندروزقبل رسول اللہ ﷺنے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کو مشرکینِ مکہ کے لشکرکی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی غرض سے مدینہ شہرسے باہرکہیں بھیج رکھاتھا،اوراسی دوران غزوۂ بدرکااہم ترین واقعہ پیش آگیا،لہٰذاحضرت طلحہ بن عبیداللہؓ غزوۂ بدرمیں شرکت نہیں کرسکے تھے ، البتہ اس کے باوجودآپﷺ نے انہیں اجروثواب کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔
غزوۂ بدرکے بعدرسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ، ہرغزوے کے موقع پرحضرت طلحہ بن عبیداللہؓ رسول اللہﷺکی زیرِقیادت حاضراورشریک رہے اوراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرہمیشہ بے مثال شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے رہے۔بالخصوص غزوۂ اُحدکے موقع پران کاکرداریقیناتاریخِ اسلام کے ایک ناقابلِ فراموش باب کی حیثیت رکھتاہے۔
غزوۂ اُحدکے موقع پرکیفیت یہ ہوئی کہ ابتداء میں مسلمان یہ جنگ تقریباًجیت ہی چکے تھے، لیکن پھراپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے ان کی یہ فتح شکست میں تبدیل ہوگئی،مسلمان اپنی صفوں میں نظم وضبط برقرار نہ رکھ سکے،باہم رابطہ بھی منقطع ہوگیا،لشکرمیں ہر طرف بدنظمی اورافراتفری پھیل گئی، مسلمانوں کوبڑی ہی پریشان کن صورتِ حال سے دوچارہوناپڑا،اس افراتفری کے ماحول میں مٹھی بھرچندافرادجوبدستوررسول اللہﷺ کے گردگھیراڈالے ہوئے بڑی ہی بے جگری کے ساتھ دشمنوں کامقابلہ کررہے تھے،ان میں حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ بھی شامل تھے،اس دوران ایک موقع ایسابھی آیاجب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ محض تنہارہ گئے تھے،مشرکین اس دوران آپﷺ کونشانہ بنانے کی سرتوڑکوشش کرتے رہے،بالخصوص اُن کی طرف سے تیراندازی کا سلسلہ بہت زوروں پرتھا،ایسے میں حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ مسلسل رسول اللہ ﷺکے سامنے ڈھال بنے رہے،اس نازک ترین موقع پر،تیروں کی اس بوچھاڑکے درمیان،نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ اس طرف آتے ہوئے بہت سے تیروں کوانہیں اپنے ہاتھوں پرروکناپڑا،جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ان کاایک بازوہمیشہ کیلئے مفلوج ہوگیا۔
اس نازک ترین صورتِ حال میں ایک موقع ایساآیاکہ حفاظتی اقدام کے طورپررسول اللہ ﷺنسبۃً ایک محفوظ مقام کی جانب منتقل ہوناچاہتے تھے،وہ مقام کچھ بلندی پر تھا، وہاںتک پہنچنے کیلئے ایک بڑی چٹان کے اوپرسے گذرناضروری تھا،آپﷺ اُس وقت لہولہان تھے،سرسے خون بہہ رہاتھا،رُخِ انورپربھی کاری زخم آیاتھا،نقاہت بہت زیادہ تھی،لہٰذاآپﷺ کواس چٹان پرچڑھنے میں بڑی دشواری پیش آرہی تھی،حضر ت طلحہ بن عبیداللہؓ نے آپ ﷺکواپنی پشت پراٹھالیا،اورساتھ ہی مستقل طور پرکبھی دشمنوں کی طرف سے آنے والے تیرکوروکتے،کبھی تعاقب میں آنے والے کسی مشرک کورفع دفع کرتے،حالانکہ اس وقت وہ خود زخموں سے چوراوربہت زیادہ نڈھال تھے،ایک ہاتھ بالکل شل ہوچکاتھا،لیکن ان تمام ترمشکلات کے باوجود اُس وقت انہوں نے آپﷺ کومسلسل اپنی پشت پراٹھائے رکھا،حتیٰ کہ اسی کیفیت میں انتہائی دشوارگذارپہاڑی راستے پرچلتے ہوئے اُس بلندچٹان پرچڑھے اورآپﷺ کواس محفوظ مقام تک پہنچایا،جہاں آپﷺ پہنچناچاہتے تھے،چنانچہ آپﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا:’’طلحہ کیلئے جنت لازمی ہوچکی‘‘(ترمذی)
رسول اللہﷺکواپنی پشت پراٹھائے محفوظ مقام پرپہنچانے کے بعدحضرت طلحہ بن عبیداللہؓ زخموں سے چوراورلہولہان ہونے کی وجہ سے خودکوسنبھال نہ سکے اورفوراًہی نڈھال ہوکرگرگئے،چونکہ وہ مقام نسبۃًبلندی پرواقع تھا ،لہٰذاجب یہ گرے توبیہوشی کی کیفیت میں لڑھکتے ہوئے نیچے کسی گڑھے میں جاپڑے۔حضرت ابوبکرصدیقؓ فرماتے ہیں جب صورتِ حال قدرے بہترہوئی تومیں رسول اللہﷺکی تلاش میں نکل کھڑاہوا،اسی دوران مجھے ابوعبیدہ بن الجراحؓ مل گئے ،وہ بھی آپﷺ کوہی تلاش کررہے تھے،اورپھرہم دونوں مل کر آپﷺکوتلاش کرتے رہے،آخرایک بلندجگہ پرآپﷺ ہمیں نظرآئے،ہم دونوں وہاں پہنچے، آپﷺ کی کیفیت یہ تھی کہ جبینِ اقدس پرزخم تھا،روئے مبارک لہولہان تھا،زرہ کی چندکڑیاں رخسارمبارک میں پیوست تھیں،لیکن اس کیفیت کے باوجودآپﷺ نے نیچے ایک گڑھے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’پہلے ذرہ اپنے اس ساتھی کی خبرلے لو‘‘تب ہم نے دیکھااُس گڑھے میں حضرت طلحہ بیہوش پڑے تھے،ایک ہاتھ تیروں سے بری طرح چھلنی تھا اور بالکل مفلوج ہوچکاتھا،تمام جسم لہولہان تھا، ہم نے انہیں وہاں سے اٹھاکرمناسب مقام کی طرف منتقل کیاتواس وقت ہمیں ان کے جسم پرمختلف مقامات پرچھوٹے بڑے ستر سے زائدزخم نظرآئے‘‘۔
غزوہ ٔاُحدکے اس تاریخی موقع پرحضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے جس طرح جاں فشانی وسرفروشی کامظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہﷺکی طرف سے مدافعت وحمایت کامبارک ترین فریضہ سرانجام دیاتھا،یقینااسی کانتیجہ تھاکہ آپﷺ نے ایک باران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا: مَن سَرَّہ، أن یَنْظُرَ اِلَیٰ شَھِیدٍ یَمْشِي عَلَیٰ وَجہِ الأرضِ فَلیَنْظُر اِلَیٰ طَلحَۃَ بنِ عُبَیدِ اللّہ(ترمذی )’’جس کی خواہش ہوکہ وہ کسی ایسے شہیدکودیکھے جو زمین پرچل پھررہاہو ، تووہ طلحہ بن عبیداللہ کودیکھ لے‘‘۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے سامنے جب بھی غزوۂ اُحدکاتذکرہ ہوتاتوآپؓ بیساختہ فرمایاکرتے تھتـ’’وہ تمام دن توبس طلحہ ہی کا دن تھا‘‘۔یعنی اُس روزحضرت طلحہ نے جس طرح سرفروشی وجاں نثاری کامظاہرہ کیاتھا اُس کی وجہ سے گویاغزوۂ اُحداورطلحہ بس ہمیشہ کیلئے لازم وملزوم ہوکررہ گئے ہیں۔
شب وروزاورآتے جاتے موسموں کایہ سفرجاری رہا،حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کی طرف سے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضری ، کسبِ فیض ،استفادہ ، نیزآپﷺ کی خدمت وپاسبانی کایہ سلسلہ اسی طرح چلتارہا،آپﷺ کی طرف سے بھی ان کیلئے محبتوں اورشفقتوں کے مبارک سلسلے مسلسل جاری رہے،حتیٰ کہ اسی کیفیت میں آپﷺ کامبارک دور گذرگیا،آپﷺ تادمِ آخران سے انتہائی خوش اورمسرورومطمئن رہے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ عہدِنبوی کے بعد
رسول اللہﷺکامبارک دورگذرجانے کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورمیں بھی حضرت طلحہ بن عبداللہؓ کووہی بلندترین مقام ومرتبہ حاصل رہااوراس معاشرے میں ان کی وہی قدرومنزلت برقراررہی،خلیفۂ اول کے مشیرِ خاص اورانتہائی قریبی دوست کی حیثیت سے انہیں دیکھاجاتارہا ،ظاہرہے کہ ان دونوں جلیل القدرشخصیات میں بہت قدیم تعلق تھااورپرانی شناسائی تھی۔
پھرخلیفۂ دوم حضرت عمربن خطابؓ کے دورِخلافت میں بھی ان کی یہی حیثیت اورقدرومنزلت برقراررہی،حتیٰ کہ حضرت عمربن خطابؓ قاتلانہ حملے کے نتیجے میں جب شدیدزخمی ہوگئے تھے،اور اکابرِصحابہ میں سے متعددشخصیات نے یہ اصرارکیا کہ ’’اے امیرالمؤمنین آپ اپناکوئی جانشین مقررکردیجئے‘‘اس پر حضرت عمرؓنے جن چھ افرادکے نام گنواتے ہوئے یہ تاکیدکی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں،ان میں حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ بھی شامل تھے۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔)