حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ:پہلی قسط
تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ’ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔
آپؓ کاتعلق شہرمکہ میں قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان ’’بنوزہرہ‘‘سے تھا،آپؓ کی ولادت، رسول اللہﷺکی ولادت باسعادت کے تقریباً دس سال بعد مکہ شہرمیں ہوئی۔آپؓ بھی بھلائی میں تمام لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا،یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ،اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقون الأولون ‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔
مکہ شہرمیں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہونے سے قبل ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص دوستی اورقربت تھی ،دونوں میں بہت گہرے روابط تھے،چنانچہ ظہورِاسلام کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت کے نتیجے میں ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی مشرف باسلام ہوئے۔قبولِ اسلام کے بعدتکالیف ، مصائب وآلام ،اورآزمائشوں کادورشروع ہوا،دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دورمیں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کاسلسلہ عروج پرتھا،تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہﷺکے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔
ہجرتِ مدینہ کے موقع پردیگرتمام مسلمانوں کی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بھی مدینہ منورہ آپہنچے،جہاں رسول اللہﷺ نے مہاجرین وانصارکے مابین مؤاخات کے موقع پرانہیں اورسعدبن الربیع الانصاری ؓ کو’’رشتۂ اُخوت ‘‘میں منسلک فرمادیا۔اس رشتۂ اخوت میں بندھ جانے کے بعدحضرت سعدبن الربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہا:’’دیکھئے عبدالرحمن ، میرے پاس خوب مال ودولت ہے، وہ ہم آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں، نیزمیرے پاس کھجوروں کے دوباغ بھی ہیں،ان میں سے جوآپ کوپسندآئے وہ آپ لے لیجئے‘‘۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنے انصاری بھائی کی اس مخلصانہ پیشکش پران کاخوب شکریہ اداکیا،اورپھرانہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’ بَارَکَ اللّہُ لَکَ فِي مَالِک… ولٰکِن دُلَّنِي عَلَیٰ السُوق’’اللہ آپ کے مال میں مزیدخیروبرکت عطاء فرمائے،آپ بس مجھے ذرا بازارکاراستہ دکھادیجئے۔‘‘
یعنی مہاجرین صحابہ نے اپنے انصاری بھائیوں کی اس مہمان نوازی ، حسنِ اخلاق ، شرافت ، فراخدلی اوربے مثال ایثارسے ناجائزفائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی،بلکہ ان پربوجھ بننے کے بجائے محنت ومشقت کا راستہ اختیارکیا،اورجلدازجلدخوداپنے پیروں پرکھڑے ہونے کی جدوجہدمیں مشغول ہوگئے۔
چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ میں ’’تجارت‘‘کواپناذریعۂ معاش بنایا،شب وروزکی محنت وکوشش کے نتیجے میں ان کے مالی حالات کافی بہترہوتے چلے گئے۔خوشحالی وفراوانی جب نصیب ہوئی توانہوں نے ایک انصاری خاتون کے ساتھ شادی بھی کرلی، ایک روزیہ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضرہوئے توکیفیت یہ تھی کہ ان کے لباس پرخوشبوکے کچھ اثرات تھے،رسول اللہﷺ نے یہ خوشگوارتبدیلی دیکھی توتعجب کی کیفیت میں اورنہایت شفقت بھرے اندازمیں انہیں مخاطب کرتے ہوئے دریافت فرمایا:’’اے عبدالرحمن،کیاتم نے شادی کرلی ہے؟‘‘اس پر عبدالرحمن ؓ نے عرض کیا’’جی ہاں ، ‘‘آپﷺ نے دریافت فرمایا’’اپنی دلہن کوتم نے مہرمیں کیاچیزدی ہے؟‘ ‘ عرض کیا : وَزنَ نَوَاۃٍ مِن ذَھَب’’کھجورکی گٹھلی کے وزن کے برابرسونا‘‘آپﷺ نے تاکیدی اندازمیں فرمایا: أَولِم وَلَو بِشَاۃٍ’’ولیمہ ضرورکرنااگرچہ محض ایک بکری ہی کیوں نہ ہو‘‘اورپھر ٓپ ﷺنے انہیں دعائے خیردیتے ہوئے فرمایا: بَارَکَ اللّہُ لَکَ ۔’’اللہ تمہیں خیروبرکت عطاء فرمائے‘‘(بخاری شریف)
اس موقع پریہ بات قابلِ غورہے کہ ان جلیل القدر شخصیات کی سادگی قابل دید ہے کہ شادی کے موقع پرکسی بڑی تقریب کاکوئی اہتمام نہیں ہے، کوئی دھوم دھڑکانہیں ہے،فضول خرچی اورجھوٹی شان وشوکت کاوہاں کوئی تصورنہیں ہے،رسول اللہﷺتک کوبھی خبر نہ ہوسکی،لیکن آپ ﷺ نے کوئی شکوہ نہیں کیا،یقینااس سادگی میں امت کیلئے بڑالمحۂ فکریہ ہے۔
رسول اللہﷺ نے اپنے صحابی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کواس دعائے خیروبرکت سے جونوازا،اس مبارک دعاء کاجواثرظاہرہوا اس بارے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فَأقبَلَتِ الدُّنیَا عَلَيَّ ، حَتَّیٰ رَأَیتُنِي لَو رَفَعتُ حَجَراً لَتَوَقَّعتُ أن أجِدَ تَحتَہ، ذَھَباً أو فِضَّۃ’’ اس دعائے خیرکے بعددنیاوی نعمتیں خودبخودمیرے پاس آتی ہی چلی گئیں،یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگاکہ اگرمیں کوئی پتھربھی اٹھاؤں گا تواس کے نیچے سے میرے لئے سونا یا چاندی برآمدہوگا‘‘۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد جب غزوات کی نوبت آئی توحق وباطل کے درمیاں پہلی یادگارجنگ یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پر، اورپھردوسری جنگ ’’اُحد‘‘کے موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی زیرِقیادت شریک ،بلکہ پیش پیش رہے، اورشجاعت وبہادری کے خوب جوہردکھاتے رہے،بالخصوص ’’غزوۂ اُحد‘‘کے موقع پرجب مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے،ہرطرف افراتفری پھیل گئی، تب اس نازک ترین صورتِ حال میں مٹھی بھرچندافرادجورسول اللہﷺ کے ہمراہ موجود تھے ،انہی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، اس موقع پرانہوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں،بہت چوٹیں کھائیں،تلواروں اورتیروں کے بہت سے زخم لگے،لیکن ان کی بہادری اورثابت قدمی میں کوئی فرق نہ آیا، پائے استقامت میں ذرہ برابرلغزش نہیں آئی…اورپھرجنگ کے اختتام پرجب میدانِ جنگ سے نکلے توکیفیت یہ تھی کہ جسم کےمختلف مقامات پربیس سے زیادہ کاری زخم لگے ہوئے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔۔)