سوال: شوہر نے بیوی کو مارا، بعد میں معافی مانگی لیکن بیوی نے معاف نہیں کیا تو شوہر نے کہا کہ اچھا میں اب تم سے معافی نہیں مانگوں گا۔ تم خود جب تک معاف نہیں کرو گی تب تک تم مجھ پر حرام ہو ۔ میں ہم بستری نہیں کروں گا ۔اور یہ غصہ میں نہیں کہا۔ آرام سے بیوی کو منانے کے لیے کہا اور بار بار کہا۔
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر نے بیوی کو منانے کے لیے کہا کہ جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گی تم مجھ پر حرام ہو اور اس سے طلاق کا ارادہ بھی نہیں تھا، لہذا اب یہ الفاظ ایلاء اور قسم دونوں کا احتمال رکھتے ہیں۔جس کا حکم یہ ہے کہ یا تو بیوی شوہر کو معاف کر دے اور پھر شوہر بیوی سے ہم بستری کر لے۔ اس صورت میں شوہر کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور اس پر کچھ واجب بھی نہیں ہو گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ بیوی کے معاف کیے بغیر ہی شوہر بیوی سے ہم بستری کر لے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔ کفارہ قسم دس مسکینوں کو پیٹ بھر کر صبح شام کھانا کھلانا یا متوسط قیمت کے جوڑے خرید کر دینا۔ اور اگر ان دونوں میں سے کسی کی قدرت نہ ہو تو 3 دن لگاتار روزے رکھنا ہے۔
لیکن اگر ان دونوں صورتوں میں سے کسی پر عمل نہیں کیا اور 4 ماہ اسی حال میں گزر گئے تو بیوی کو ایک طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی۔ جس سے نکاح ختم ہو جائے گا۔ البتہ باہمی رضامندی سے عدت کے یا عدت کے بعد نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔ دوبارہ نکاح کی صورت میں ایلا کا حکم واپس لوٹ آئے گا اور پھر مذکورہ بالا صورتیں لاگو ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔[مطلب في قوله أنت علي حرام]
——–ونحو ذلك كأنت معي في الحرام (إيلاء إن نوى التحريم، أو لم ينو شيئا، وظهار إن نواه، وهدر إن نوى الكذب) وذا ديانة، وأما قضاء فإيلاء قهستاني (وتطليقة بائنة) إن نوى الطلاق وثلاث إن نواها ويفتى بأنه طلاق بائن(ص433 – كتاب حاشية ابن عابدين رد المحتار ط الحلبي – مطلب في قوله أنت علي حرام)
2۔ (قوله: إيلاء إلخ)۔۔۔۔۔. قال في الدر: فإن هذا اللفظ مجمل فكان بيانه إلى المجمل، فإن قال: أردت به التحريم أو لم أرد به شيئا كان يمينا ويصير به موليا، لأن تحريم الحلال يمين (ص434 – كتاب حاشية ابن عابدين رد المحتار ط الحلبي – مطلب في قوله أنت علي حرام)
3۔وعلى هذا لو قال لا أقربك حتى أعتق عبدي أو حتى أطلق فلانة أو حتى أطلقك يصير موليا عندهما خلافا له لأنه يمكنه القربان بلا شيء بأن لا يشتري عبدا ولا يتزوج وبتقديم الغاية.(ص203 – كتاب فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي – باب الإيلاء)
4۔البيت «١» وقد اختلف أهل العلم في الإيلاء، فقال الجمهور: إن الإيلاء هو أن يحلف أن لا يطأ امرأته أكثر من أربعة أشهر، فإن حلف على أربعة أشهر فما دونها لم يكن موليا وكانت عندهم يمينا محضا، وبهذا قال مالك، والشافعي، وأحمد، وأبو ثور. وقال الثوري والكوفيون: الإيلاء أن يحلف على أربعة أشهر فصاعدا، وهو قول عطاء. وروي عن ابن عباس: أنه لا يكون موليا حتى يحلف أن لا يمسها أبدا. وقالت طائفة: إذا حلف أن لا يقرب امرأته يوما أو أقل أو أكثر ثم لم يطأ أربعة أشهر بانت منه بالإيلاء.
(ص267 – كتاب فتح القدير للشوكاني – سورة البقرة الآيات إلى – المكتبة الشاملة)
5۔وإن كان مما يتصور بقاء النكاح مع وجوده فإن كان مما لو حلف به لكان موليا يصير موليا إذا جعله غاية، وإلا، فلاهذا أصل أبي حنيفة، ومحمد.(ص166 – كتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى الوقت وهو مضي مدة الإيلاء
——–
الفصل الثاني في الكفارة]
وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي۔۔۔۔۔۔۔۔.فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات(ص61 – كتاب الفتاوى العالمكيرية الفتاوى الهندية – الفصل الثاني في الكفارة)
والله تعالى أعلم بالصواب
22 جمادی الثانی1444ھ
15 دسمبر 2023