میں اولاد کے لیے علاج کروا رہی ہوں میراایک minor procedure کیا گیا ہے اور ڈاکٹر نے مجھے جھکنے سے منع کیا ہے کہ میں رکوع نہ کروں اور اشارے سے نماز پڑھوں۔ اور دن میں مجھے تین بار دوائی رحم میں رکھنی پڑتی ہے اور اس سے غسل واجب ہوجاتا ہے اور میں تین بارغسل نہیں کر سکتی تو کیا میں تیمم کرکے نماز پڑھ سکتی ہوں اور مجھے یہ دوائی تھوڑا زیادہ عرصہ استعمال کرنا ہے ۔مجھے پانی کےاستعمال سے منع نہیں کیا گیالیکن جھکنے سے منع کیا گیا ہے۔اور میرے پاس گرم پانی کی سہولت بھی میسر نہیں مجھے واضح کردیجیے کہ میں کس طرح پاکی حاصل کروں؟
تنقیح : غسل سے مراد کیا ہے کیا انزال ہوتا ہے؟
جواب تنقیح: صرف دوائی فرج میں جاتی ہے دوائی رکھنےسے انزال کبھی نہیں ہوا۔
الجواب باسم ملہم الصواب
1۔اگر انزال نہ ہوتو علاج کی غرض سے رحم میں دوائی رکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ،تاہم اگر دوائی رکھنے سے دوائی خود یا رطوبت خارج ہوجائےتو صرف وضو ٹوٹ جائے گاغسل واجب نہیں ہوگا۔اب چونکہ آپ کو پانی کے استعمال سے منع نہیں کیا،لہذا آپ صرف وضو ہی کرکے اپنی تمام عبادات جاری رکھ سکتی ہیں۔فی الحال تیمم نہ کریں۔
2. اگر واقعی دیندار ڈاکٹر نے آپ کو جھکنے سے منع کر کے اشارے سے نماز پڑھنے کا کہا ہے تو آپ کے لیے اس کی گنجائش ہوگی۔
———————————————-
حوالہ جات :
1.المعانی الناقضة للوضوء کل ما یخرج من السبیلین” لقولہ تعالی: ”او جاء احد منکم من الغاٸط “ ایة وقیل لرسول اللہ ﷺ وما الحدث؟ قال علیہ الصلاة والسلام ”ما یخرج من السبیلین “(الھدایة: جلد 1، صفحہ 24)
2.قال الحنفیة: ”عشرة اشیاء لا یغتسل منھا; مذی،ودی واحتلام بلا بلل و ولادة مں غیر رٶیة دم بعدھا فی قول ابی حنیفة والاصح کما ابان ابن عابدین وجوب الغسل لھا احتیاطا وایلاج بخرقة مانعة من وجود اللذة علی الاصح وحقنة وادخال اصبع ونحوہ فی احد السبیلین و وطٸ بھیمة او میتة من غیر انزال واصابة بکر لم تزل الاصابة بکارتہ من غیر انزال ۔“(الفقہ الاسلامی وادلتہ: 505)
3.وإن عجز عن القيام والركوع والسجود وقدر على القعود يصلي قاعداً بايماء ويجعل السجود أخفض من الركوع.(الفتاوى الهندية:جلد 1 صفحہ 134)
4.وان لم يكن كذالك ولكن يلحقه نوع مشقة لا يجوز ترك القيام(الفتاوى التاتارخانية: جلد 2،صفحہ 667)
5.”وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي. واختاره في الأسرار. لكن الأصح عدم جوازه إجماعاً، كذا في النهر الفائق. والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.
ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم”(الفتاوى الهندية : جلد 1، صفحہ 28)
6.”(من عجز) مبتدأ خبره تيمم (عن استعمال الماء) المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف (لبعده) ولو مقيماً في المصر (ميلاً) أربعة آلاف ذراع، (أو لمرض) يشتد أو يمتد بغلبة ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرك … (أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه.
(قوله: من عجز) العجز على نوعين: عجز من حيث الصورة والمعنى، وعجز من حيث المعنى فقط، فأشار إلى الأول بقوله لبعده، وإلى الثاني بقوله أو لمرض، أفاده في البحر…. (قوله: يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لايجوز له التيمم للبرد في الصحيح، خلافاً لبعض المشايخ، كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اهـ. واستشكله الرملي بما صححه في الفتح وغيره في مسألة المسح على الخف من أنه لو خاف سقوط رجله من البرد بعد مضي مدته يجوز له التيمم. قال: وليس هذا إلا تيمم المحدث لخوفه على عضوه، فيتجه ما في الأسرار من اختيار قول بعض المشايخ.أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله – إن شاء الله تعالى – نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون (قوله: ولو في المصر) أي خلافاً لهما (قوله: ولا ما يدفئه) أي من ثوب يلبسه أو مكان يأويه. قال في البحر: فصار الأصل أنه متى قدر على الاغتسال بوجہ من الوجوه لايباح له التيمم إجماعاً”(فتاوی شامیہ: جلد 1،صفحہ 232)
—————‐————————
1.اگر بیماری کی وجہ سے پانی نقصان کرتا ہو کہ وضو یا غسل کرے گا تو بیماری بڑھ جائے گی یا ٹھیک ہونے میں دیر لگے تب بھی تیمم درست ہے۔لیکن اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہو اور گرم پانی نقصان نہ کرتا ہو تو گرم پانی سے غسل کرنا واجب ہے۔اگر کہیں برفباری ہو رہی ہو تو اور اتنی سردی پڑتی ہو کہ نہانے سے مر جانے یا بیمار ہونے کا خوف ہو اور رضائی لحاف وغیرہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ نہانے کے بعد اس میں خود کو گرم کرلے توایسی مجبوری کے وقت تیمم کرلینا درست ہے۔)(تسہیل بہشتی زیور: جلد 1، صفحہ 200)
2.تیمم صحیح ہونے کی شرائط :
پانی کے استعمال پر قادر نہ ہونا
(تسہیل بہشتی زیور: جلد1، صفحہ 198)
3.بوڑھا کمزور آدمی جسے خوف ہو کہ اگر غسل کرے گا تو سخت بیمار ہوجائے گاتو اسے جائز ہے کہ غسل کے بجائے غسل کا تیمم کرکے اور وضو کرکے نماز پڑھ لے پھر دھوپ کے وقت غسل کرلے۔(کفایت المفتی: جلد 2، صفحہ 319)
4.سوال: عورت کا فرج میں دوا رکھنا موجب غسل ہے یا نہیں؟
جواب: جیسا سوال میں مذکور ہے غسل واجب نہیں.(امداد الاحکام: جلد1،صفحہ 359)
——————————————-
واللہ اعلم بالصواب
1جنوری 2022
8جمادی الثانی1444