شوہر کا مختلف موقعوں پر طلاق بائن دینا۔

سوال: میری شوہر کے ساتھ کافی عرصہ سے کشیدگی چل رہی تھی پچھلے عرصے میں کئی دفعہ
1۔میرے شوہر نے مجھے کئی مرتبہ کہا کہ تم میری طرف سے فارغ ہو ۔کیا اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟

2۔ ایک مرتبہ اس نے بہت مارا پیٹا اور میرے منہ پر تھوکا اور کہا کہ میں نے تمھیں تھوک دیا تم فارغ ہو۔
3۔ 1نومبر کو مجھے کہا کہ تم میری طرف سے فارغ ہو تمھیں طلاق پھر میرے بہنوئی کو میسج کیا کہ میں نے اسے طلاق دے دی ،اور بیٹی کے اسکول میں ٹیچر کو بھی میسج کیا کہ میں نے اسے طلاق دے دی تو کیا اس سے ایک ہی طلاق واقع ہو گی؟
اب میں نے تنسیخِ نکاح کا کیس دائر کروایا تو میرے شوہر صلح کے لیے آگئے وہ کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں لغو ہیں ان سے طلاق وغیرہ نہیں ہوئی جتنے مولویوں سے پوچھو گی تو وہ کہیں گے کہ ہو گئی جبکہ کچھ نہیں ہوا اس لیے گھر چلو ،میری راہنمائی کریں ،(میرے شوہر اہل حدیث ہیں)

تنقیح 1:
شوہر نے کہی مرتبہ کہا کہ تم میری طرف سے فارغ ہو یہ ایک ہی مجلس میں کہا یا الگ الگ موقعوں پر کہا؟

جواب تنقیح: الگ الگ موقعوں پر کہا۔

تنقیح 2:
شوہر نے اگلی بار “میں نے تمہیں تھوک دیا، تم فارغ ہو” یہ جملہ پہلے جملے کے کتنے عرصے بعد کہا؟ اور بہنوئی اور ٹیچر کو میسج تم فارغ ہو کہنے کے فورا بعد کیے؟

جواب تنقیح: بہنوئی اور ٹیچر کو طلاق دینے کے ایک دن بعد میسج کرکے بتایا۔

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ غصہ کی حالت میں یا مذاکرہ طلاق کی حالت میں “تم میری طرف سے فارغ ہو” کے الفاظ سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے شوہر نے پہلی مرتبہ آپ کو کہا تھا کہ تم میری طرف سے فارغ ہو تو آپ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی، جس کے بعد آپ دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں تھا۔ تاہم اس کے بعد اس نے مزید کے جتنی مرتبہ فارغ ہو کا لفظ کہا ہے اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاقِ بائن کے بعد دوسری طلاق بائن واقع نہیں ہوتی۔ لہذا آپ کے لیے عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہے اور اگر آپ دوبارہ پہلے شوہر کے ساتھ ہی رہنا چاہیں تو اس کے لیے باہمی رضامندی سے نئے مہر پر دو گواہوں کی موجودگی میں ان سے دوبارہ بھی نکاح ہوسکتا ہے۔
چونکہ شرعا طلاق واقع ہوچکی ہے اس لیے عدالت سے فسخِ نکاح کی ڈگری کی شرعا ضرورت نہیں، تاہم اگر دوسرا نکاح کرنے کے لیے قانونی طور پر اس کی ضرورت ہو تو یہ کام بھی کرسکتی ہیں۔

=======================
حوالہ جات:

”(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية”.
(الفتاوی الھندیۃ: 410/1)

2۔ لو قَالَ لھا بعد البینونة خلعتک ونوی بہ الطلاق لا یقع بہ شیء. وفی الحاوی القدسی: إذا طلق المبانة فی العدة، فإن کان بصریح الطلاق وقع ولایقع بکنایات الطلاق شیء وإن نوی.
(البحر الرائق: 534/3)

3۔”میں نے تمہیں فارغ کردیا“طلاق ہی کے الفاظ ہیں، ان الفاظ سے ایک طلاقِ بائن ہوگئی۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: 459/6)

4۔ کنایہ لفظ سے ایقاع بائن متعارف ہے اس لیے بلا نیت اس سے طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی اور چونکہ بینونة غلیظہ کی کوئی دلیل نہیں؛ اس لیے۔ بینونة خفیفہ ثابت ہوگی، جس میں تجدید نکاح زوجین میں بلاحلالہ جائز ہے، پس صورتِ مسئولہ میں بلا تجدید نکاح تو ان زوجین کا اجتماع حرام ہے۔
(امداد الفتاوی: 305/5)

واللہ أعلم بالصواب

26 جمادی الأولی 1444ھ
20 دسمبر 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں