🔖صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
موضوع: فقہ الحظر و الاباحہ
🔎سوال:
محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مخلوط تقریبات شادی بیاہ وغیرہ میں تو آپ جانا نہیں چاہتے جہاں مخلوط کے ساتھ ساتھ میوزک بھی ہو اور اگر چلے بھی جاؤ تو اتنے بے چین کیوں ہوتے ہو جاکر۔ تو پھر پارکس، سمندر وغیرہ پر کیوں جاتے ہو اور وہاں مطمئن بھی رہتے ہو، جب کہ مخلوط شادیوں میں جاکر آپ صلہ رحمی بھی کر رہے ہو تو آپ کے درجات زیادہ بلند ہوں گے۔
اگر وہ تقریبات ہوں جو بہت قریبی رشتہ دار کی ہوں اور وہ نہ آنے سے ناراض ہوں، تو جانا چاہیے؟
تفصیلی جواب دے کر رہنمائی فرمائیں
الجواب باسم ملهم الصواب
وعلیکم السلام و رحمة الله!
شریعت میں مخلوط تقریبات میں اور گناہوں کی مجالس میں شرکت کی ممانعت ہے، چاہے اپنوں کی ہو یا غیروں کی۔ حدیث میں اس قسم کی مجالس میں شرکت پر سخت وعید آئی ہے۔ ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی ناچ گانا وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو تو اس تقریب میں عام شخص شرکت نہ کرے اور اگر عالم ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہاں جا کر گناہ کو روک سکتا ہے تو جا سکتا ہے۔ ایسی تقریبات جو بدعت اور کفار کی مشابہت ہونے کی وجہ سے فی نفسہ ناجائز ہوں (مثلاً تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ) تو ان میں بالکل بھی شرکت نہ کی جائے۔نیز کسی بھی مجلس میں شرکت کرنی ہے یا نہیں اس کا مدار شریعت پر ہے۔ اللہ کو ناراض کر کے کوئی صلہ رحمی نہیں کر سکتا۔ صلہ رحمی اور قطع رحمی شرعی اصطلاحات ہیں، اس لیے صلہ رحمی وہ ہوگی جو شریعت کی نظر میں صلہ رحمی ہو اور قطع رحمی بھی وہی کہلائے گی جو شریعت کی نظر میں قطع رحمی ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص شرعی حکم کے پیش نظر اس طرح کی کسی تقریب یا رسوم میں شرکت نہ کرے تو اسے قطع رحمی نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی اسے قطع رحمی کا گناہ ملے گا ، بلکہ ایمان کا تقاضہ ہونے کی وجہ سے اسے اس پر ثواب بھی ملے گا۔
پارکس اور سمندر پر جانے کے مسئلے میں تفصیل یہ ہے کہ اسلام خواتین کے لیے بلاضرورت گھر سے نکلنے کو پسند نہیں کرتا۔ تفریحِ انسان کی فطری ضرورت ہے ، لہذا اگر کبھی جانا ہو تو درج ذیل باتوں کا خیال رکھتے ہوئے جانے کی اجازت ہوگی:
1۔ ایسی جگہ نہ جائیں جہاں مردوں عورتوں کا اختلاط ہو یا دیگر خرافات ہوں۔
2۔ خواتین مکمل شرعی پردہ میں جائیں۔
3۔ اپنے محارم کے ساتھ جائیں۔
====================
حوالہ جات
1″و قرن في بيوتكن”۔( سورة الاحزاب،33)
(ترجمہ: اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو۔)
2 “لا طاعة لمخلوق في معصية خالق”. ( سنن ترمذی، حدیث: 1707)
( ترجمہ: کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں کرنی خالق کی نافرمانی کر کے)
3″رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين: إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك، وإما إن لم يكن عالماً به، فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب”. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 5/ 128)
🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸
بقلم:
قمری تاریخ: 10 ربیع الاول 1444ھ
عیسوی تاریخ: 6 اکتوبر 2022ء