زکوۃ میں نقد رقم کی بجائے استعمالی اشیاء دینا

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی صاحب نصاب خاتون زکوۃ کی ادائیگی کے لیے ضرورت مند کو کوئی استعمال کی چیز خرید کر دینا چاہتی ہیں تو دے سکتی ہیں؟ اگر وہ یہ چیز اپنے بیٹے کی دکان سے خرید کر زکوۃ ادا کریں توایسا کرنے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی؟
الجواب باسم ملھم الصواب
زکوۃ کی ادائیگی نقد رقم سے یا پھر ایسی چیز سے کرنا جو حالات کے اعتبار سے مستحق کی ضرورت کے مطابق ہو یہ زیادہ افضل ہے۔ تاہم اگر کوئی راشن،کپڑے یا دیگر استعمالی سامان کے ذریعے اپنی زکوۃ ادا کرے تو اس طرح بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی ۔نیز بیٹے کی دکان سے اشیاء خرید کر بھی زکوۃ ادا کی جاسکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. وكان الفقيه أبو جعفر رحمه الله تعالى يقول : أداء القيمة أفضل ؛ لأنه أقرب إلى منفعة الفقير فإنه يشتري به للحال ما يحتاج إليه۔( المبسوط للسرخسي :4 / 141)
2. وذكر في الفتاوى أن أداء القيمة أفضل من عين المنصوص عليه وعليه الفتوى كذا في الجوهرة النيرة( الفتاوى الهندية :1 / 192)
3. ولهذا ذكر الولوالجي وغيره أنه لو عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وجعله من زكاة ماله فالكسوة تجوز لوجود ركنه، وهو التمليك، وأما الإطعام إن دفع الطعام إليه بيده يجوز أيضا لهذه العلة. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري : 2/ 217)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:12/صفر /۱۴۴۴ھ
شمسی تاریخ:9/ستمبر/2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں