فتویٰ نمبر:1074
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
احناف کی مذکورہ آٹھ کتابوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ یہ عبارت منقول ہے۔
جس سے وسیلے کی حرمت وکراہت ثابت ہوتی ہے۔
يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ، وَكَذَا بِحَقِّ أَنْبِيَائِك، وَأَوْلِيَائِك أَوْ بِحَقِّ رُسُلِك أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ أَوْ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ؛ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى
مفہوم عبارت: یہ مکروہ عمل ہے کہ کوئی شخص اپنی دعامیں یہ کہے کہ ’’(اے اللہ میری دعا قبول فرما)فلاں شخص کے واسطے سے،اور(اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کہے کہ) اپنے انبیا کے وسیلے سے اور اولیا کے واسطے یا اپنے رسولوں کے واسطے سے یا بیت اللہ کے واسطے سے،مشعر حرام کے واسطے سے،کیونکہ مخلوق کو خالق پر اس طرح کا کوئی حق نہیں۔
١۔تبین الحقائق شرح کنز الدقائق:کتاب الکراہیہ،فصل فی البیع،ج٦ص٣١
٢۔بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع:ج٥ص١٢٦
٣۔الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی:ج٤ص٣٨٠
٤۔متن بدایۃ المبتدی فی فقہ الامام ابی حنیفہ:ج١ص٢٤٨
٥۔العنایۃ شرح الھدایۃ:ج١٠ص٦٤،ج١٢ص٢٤٨.
٦۔درر الحکام شرح غرر الاحکام:ج١ص٣٢١
٧۔رد المحتار على الدر المختار:ج٦ص٣٩٧
٨بحر الرائق شرح کنز الدقائق:ج٨ص٢٣٥
حنفیوں کو چاہیے کہ کم از کم حنفی ہی بن جائیں۔
استاد جی۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں
والسلام
الجواب حامداو مصليا
گہری نظر سے دیکھا جائے تو آپ کے سوال میں ہی جواب موجود ہے۔ جو عبارت اس مسئلے کے ناجائز ہونے کی دلیل کے طور پر ذکر کی گئی اس میں عدم جواز کی علت” لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى” ذکر کی گئی کہ اللہ پر کوئی چیز واجب نہیں اور اس کے ذمہ کسی کا حق نہیں۔ تو بالکل ائمہ احناف کے نزدیک یہ مسئلہ اسی طرح ہے۔
” ولا يجب على الله شيء خلافا للمعتزلة “
(مرقاۃ ج1ص237 کتاب الایمان)
لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح لفطِ ”حق“ وجوبی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح ”تفضلی واستحسانی“ طورپر بھی استعمال ہوتا ہے،
(یعنی اپنے فضل و احسان سے گویا کہ اپنے اوپر لازم کرلینا)
مثلاً:
1:قرآن مجید میں ہے:
” ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقّاً عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ “
(سورۃ یونس: 103)
ترجمہ: پھر ہم ( اس عذاب سے) اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچالیتے تھے(جس طرح ان مؤمنین کو ہم نے نجات دی تھی) ہم اسی طرح سب ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں یہ (حسب وعدہ) ہمارے ذمہ ہے۔
2: ایک دوسرے مقام پر ہے:
” وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ “
(سورۃ الروم:47)
ترجمہ: اور ایمان والوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ تھا۔
3: حدیث مبارک میں ہے :
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من قال حين يمسي رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا كان حقا على الله أن يرضيه
(جامع الترمذی: ابواب الدعوات- باب الدعا اذا اصبح و اذا امسیٰ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شام کے وقت یہ دعا پڑھے: ” رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا“ تو اللہ کے ذمہ ہے کہ اسے (قیامت کے دن) راضی کرے۔
چونکہ اہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ ہےکہ کوئی چیز اللہ پر واجب نہیں۔ اس لیے ہم وسیلہ میں”حق“ کو تفضلی معنیٰ استعمال کرتے ہیں نہ کہ وجوب کے معنیٰ میں (یعنی اللہ نے اپنے فضل سے اپنے اوپر لازم کرلیا)۔ فقہاء کرام نے بھی جہاں اس دعا ءِ وسیلہ کو مکروہ لکھا ہے جس میں”حق“ بمعنیٰ وجوبی ہے جس کی طرف ”لاحق للمخلوق علی الخالق “سے اشارہ ملتا ہے۔
لہذا اللہ پر حق وجوبی کا عقیدہ رکھتے ہوئے دعا میں بحق فلاں کا لفظ استعمال کرنا مکروہ ہے اور حق سے مراد غیر وجوبی یعنی تفضلی واستحسانی کے ساتھ دعا کرنا بلا کراہت جائز ہے۔
نیز توسل میں دعا اللہ سے مانگی جاتی ہے اور نبی یا ولی کو صرف وسیلہ بنایا جاتا ہے۔ اور نبی و ولی کے وسیلہ سے مانگنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ نبی و ولی کی طرف سے اللہ پر کوئی چیز لازم کی جارہی ہے بلکہ اللہ تبارک وتعالی نے انبیاء علیہم الصلوةوالسلام کو اپنے فضل سے اپنی طرف سے ایک عظیم ترین حرمت و عظمت عطا فرمائی ہے اور یہ حرمت و عظمت انبیاء کی زندگی میں بھی باقی رہی اور وفات کے بعد بھی باقی ہے۔ اب اگر اس حرمت کا وسیلہ دے کر کوئی شخص اللہ تعالی سے دعا مانگتا ہے تو یہ جائز ہے۔
الحجة على ما قلنا من الحديث
” أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: “ادع الله أن يعافيني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خير لك، قال: فادعه، قال: فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء: اللهم إني أسألك، وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم فشفعه فيّ”
أخرجه أحمد في المسند 4/138. والترمذي: كتاب الدعوات باب 119، 5/569 ح3578، وابن ماجه كتاب إمامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في صلاة الحاجة 1/441 ح1384 والحاكم في المستدرك 1/313. جميعهم من طريق عمارة بن خزيمة بن ثابت، عن عثمان بن حنيف.
وقال ابن عبدين: قَدْ يُقَالُ إنَّهُ لَا حَقَّ لَهُمْ وُجُوبًا عَلَى اللَّهِ تَعَالَى، لَكِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى جَعَلَ لَهُمْ حَقًّا مِنْ فَضْلِهِ أَوْ يُرَادُ بِالْحَقِّ الْحُرْمَةُ وَالْعَظَمَةُ، فَيَكُونُ مِنْ بَابِ الْوَسِيلَةِ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: – {وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ} [المائدة: 35 وَقَدْ عَدَّ مِنْ آدَابِ الدُّعَاءِ التَّوَسُّلَ عَلَى مَا فِي الْحِصْنِ،
نَعَمْ ذَكَرَ الْعَلَّامَةُ الْمُنَاوِيُّ فِي حَدِيثِ «اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك وَأَتَوَجَّهُ إلَيْك بِنَبِيِّك نَبِيِّ الرَّحْمَةِ» عَنْ الْعِزِّ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ أَنَّهُ يَنْبَغِي كَوْنُهُ مَقْصُورًا عَلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَأَنْ لَا يُقْسِمَ عَلَى اللَّهِ بِغَيْرِهِ وَأَنْ يَكُونَ مِنْ خَصَائِصِهِ قَالَ وَقَالَ السُّبْكِيُّ: يَحْسُنُ التَّوَسُّلُ بِالنَّبِيِّ إلَى رَبِّهِ وَلَمْ يُنْكِرْهُ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ وَلَا الْخَلَفِ إلَّا ابْنَ تَيْمِيَّةَ )ص397 – (كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار – فصل في البيع – المكتبة الشاملة الحديثة)
واللہ اعلم بالصواب
و اللہ الموفق
قمری تاریخ:25/3/1440
عیسوی تاریخ:3/12/2018
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
====================
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇
===================
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
www.suffahpk.com
===================
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:
https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A