سوال: زکوٰۃ کی رقم سے کسی فقیر کے کفن وغیرہ کا انتظام جائز ہے؟کیا زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ زکوٰۃ کے درست ہونے کے لیے شرط ہے کہ مستحق شخص کو زکوٰۃ کی رقم مالک بنا کر دی جائے۔میت چونکہ مالک بننے کا اہل نہیں؛لہذا میت کے کفن اور دفن میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی،البتہ اس کی اولاد میں سے کوئی مستحقِ زکوٰۃ ہو تو اس کو والد کی تکفین کے لیے زکوٰۃ کی رقم مالک بنا کر دینا جائز ہے،اس صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
=============
حوالہ جات:
1۔ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد وكذا القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه ولا يجوز أن يكفن بها ميت ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين.
(الفتاوي الهندية:211/1)
2۔وعلي هذا يخرّج صرف الزكاة إلي وجوه البر من بناء المساجد والرباطات والسقايات،واصلاح القناطر،وتكفين الموتىٰ ودفنهم أنه لا يجوز؛لانه لم يوجد التمليك أصلاً.
(بداىٔع الصناىٔع:39/2)
3۔ويشترط أن يكون الصرف تمليكا لا إباحة كما مر لا يصرف إلى بناء نحو مسجد ولا إلي كفن ميت وقضاء دينه.
وقال الإمام ابن عابدين:قوله:ولا إلى كفن ميت؛لعدم صحة التمليك منه.
(رد المحتار على الدر المختار:341/3)
4۔ “زکوت کے لیے مصرف کو مالک بنانا ضروری ہے اور میت میں مالک بننے کی اہلیت نہیں۔”
(فتاوی محمودیہ:44/3)
5۔ زکوٰۃ کے پیسے سے مسجد بنوانا ،کسی لاوارث مردہ کا گوروکفن کر دینا یا کسی اور نیک کام میں لگا دینا درست نہیں ،جب تک کسی مستحق کو نہ دیا جائے، زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
(مسائل بہشتی زیور:332)
واللہ اعلم بالصواب
25رجب1443ھ
27فروری2022ء