سورة الفاتحة کے بعد آمین کہنے کا حکم

سوال: سورة الفاتحة کے بعد دوران نماز اور دوران تلاوت (نماز کے علاوہ)، دونوں صورتوں میں آمین کہنا ضروری ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

جواب: نماز میں سورة الفاتحہ کے بعد آمین کہنا مسنون ہے،جبکہ نماز کے علاوہ تلاوت کرتے وقت آمین کہنا لازم نہیں،تاہم بہتر ضرور ہے؛کیونکہ سورة الفاتحہ ایک دعا ہے اور دعا کے بعد آمین کہنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔البتہ جب بھی آمین کہنی ہوتو “ولا الضالین”پر سانس توڑ کر “آمین” کہا جائے ؛تاکہ قرآن اور غیر قرآن میں فرق ہوسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ عن علقمة بن وائل عن أبیہ أن النبي – صلی اللہ علیہ وسلم – قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ، فقال آمین وخفض بہا صوتہ ۔ (ترمذی: 1/34 ، باب ما جاء في التأمین، رقم: 248)

ترجمہ: حضرت علقمة بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ﴾ پڑھا تو آپ نے آمین کہی اور اپنی آواز پست کی۔

2۔ فی تفسیر روح المعانی للعلامۃ الآلوسی: ویسن بعد الختام أن یقول القاریٔ (آمین) (الی قولہ) ولیست من القرآن إجماعا، ولذا سن الفصل بینہا وبین السورۃ بسکتۃ لطیفۃ وما قیل: إنہا من السورۃ عند مجاہد فمما لا ینبغی أن یلتفت إلیہ إذ ہو فی غایۃ البطلان (الی قولہ) ان آمین من القرآن کفر۔ الخ (ج1، ص 97)

3۔ چنانچہ بخاری شریف(1/107، باب جهر الامام بالتأمین) میں امام بخاری رحمہ اللہ حضرت عطاء کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:

“الآمين دعاء” ،آمین ایک دعا ہے۔

4۔ مجمع البحار(1/105)میں ہے:

معناه: استجب لي

5۔ فی تفسیر القرطبی ” و یسن لقارئ القرآن أن یقول بعد الفراغ من الفاتحة بعد سکتة علی “نون” و لا الضالین: آمین, لیتمیز ما ھو قرآن مما لیس بقرآن۔(ج1، ص199)

واللہ اعلم بالصواب

7 رجب 1443ھ

9 فروری2022 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں