سوال: کیا خدا سے مانگنے کے لیے وسیلہ لگانا ضروری ہے اگر ہے تو کسی کا وسیلہ استعمال کرسکتے ہیں؟ وسیلہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا زندہ اور وفات پا جانے والے ہر شخص کا وسیلہ لگانا درست ہے؟
سائل:محمد محمود
﷽
الجواب حامدا ومصلیا
آنحضرت ﷺ،انبیاء کرام ،صحابہ عظام اوراللہ کے نیک بندوں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہےچاہے وہ زندہ ہوں یا اس جہاں سے انتقال کرگئے ہوں ۔وسیلہ کی صورت یہ ہے کہ اے اللہ! اپنے ان نیک اور مقبول بندوں کے طفیل میری یہ دعا قبول فرما یا میری فلاں مراد پوری فرما۔بشرطیکہ براہ راست ان سے دعا نہ مانگی جائےبلکہ ان کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا مانگی جائے اور یہ عقیدہ بھی نہ ہو کہ اللہ تعالی بغیر وسیلہ کےسنتے ہی نہیں یا قبول نہیں فرماتے یا وسیلہ کی صورت میں اللہ تعالی پر قبولیت لازم ہوجاتی ہے۔البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ وسیلہ لگانا آداب دعا میں سے ہے اوروسیلہ لگانے کی صورت میں قبولیت کی زیادہ امیدکی جاسکتی ہے۔ معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں:
“ہر وہ چیز جو اللہ تعالی کی رضا اور قرب کا ذریعہ بنے وہ انسان کے لیے اللہ تعالی سے قریب ہونے کا وسیلہ ہے ،اس میں جس طرح ایمان اور عمل صالح داخل ہیں اسی طرح انبیاء وصالحین کی صحبت ومحبت بھی داخل ہے کہ وہ بھی رضائے الہٰی کے اسباب میں سے ہے۔اور اسی لیے ان کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے دعا کرنا درست ہوا ” معارف القرآن۳/۱۲۸
ما جاء فی کلام الرب سبحانه وتعالی[المائدة: 35]
{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 397)
عد من آداب الدعاء التوسل على ما في الحصن، وجاء في رواية: «اللهم إني أسألك بحق السائلين عليك،وبحق ممشاي إليك، فإني لم أخرج أشرا ولا بطرا»۔
ما فی تفسير الألوسي = روح المعاني (1/ 319)
وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا نزلت في بني قريظة والنضير كانوا يستفتحون على الأوس والخزرج برسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قبل مبعثه- قاله ابن عباس رضي الله تعالى عنهما وقتادة والمعنى يطلبون من الله تعالى أن ينصرهم به على المشركين۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
كما أنهم كانوا إذا اشتد الحرب بينهم وبين المشركين أخرجوا التوراة ووضعوا أيديهم على موضع ذكر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وقالوا: اللهم إنا نسألك بحق نبيك الذي وعدتنا أن تبعثه في آخر الزمان أن تنصرنا اليوم على عدونا فينصرون
وفی تفسير القرطبي فی تفسیر الایة (6/ 159)
فالأصل الطلب، والوسيلة القربة التي ينبغي أن يطلب بها،
وفی المهند علی المفند:۲۹/۳۰
عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسل فی الدعوات بالانبیاءوالصالحین فی حیوتهم وبعد وفاتهم بان یقول فی دعائه اللهم انی اتوسل الیک بفلان ان تجیب دعوتی وتقضی حاجتی الی غیر ذلک كما صرح به مشایخنا ومولانا الشاه محمد اسحق الدهلوی ثم المهاجر المكی ثم بینه فی فتاواه شیخنا ومولانا رشید احمد الجنجوهی ؒ وفی هذا الزمان شائعة مستفیضة بایدی الناس
جن چیزوں کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے ان کی دو قسمیں ہیں
۱۔توسل بالاعمال ۲۔توسل بالذوات
توسل بالاعمال کا مفہوم یہ ہے کہ کسی انسان نے اپنی زندگی میں کوئی نیک عمل کیا ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح سوال کرے کہ اے اللہ! اس نیک عمل کی برکت سے ہم پر رحم فرما، اس قسم کا جائز ہونا متفق علیہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں،اس کی اصل مسلم شریف میں مذکور ’’حدیث الغار ‘‘ہے جس میں تین آدمیوں کے غار میں بند ہونے پر اپنے نیک عمل کو وسیلہ بنا کر دعا کرنا مذکور ہے۔
ما فی صحيح مسلم.باب قصة اصحاب الغار الثلاثة والتوسل(4/ 2099)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ” بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَتَمَشَّوْنَ أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ، فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ، فَادْعُوا اللهَ تَعَالَى بِهَا، لَعَلَّ اللهَ يَفْرُجُهَا عَنْكُمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اللهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَامْرَأَتِي وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا أَرَحْتُ عَلَيْهِمْ، حَلَبْتُ، فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ، فَسَقَيْتُهُمَا قَبْلَ بَنِيَّ، وَأَنَّهُ نَأَى بِي ذَاتَ يَوْمٍ الشَّجَرُ، فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ، فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ، فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ قَبْلَهُمَا،وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَةً، نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللهُ مِنْهَا فُرْجَةً، فَرَأَوْا مِنْهَا السَّمَاءَ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللهُمَّ إِنَّهُ كَانَتْ لِيَ ابْنَةُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ، وَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا، فَأَبَتْ حَتَّى آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَتَعِبْتُ حَتَّى جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ، فَجِئْتُهَا بِهَا،فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللهِ اتَّقِ اللهَ، وَلَا تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ عَنْهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَةً، فَفَرَجَ لَهُمْ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللهُمَّ إِنِّي كُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ فَرَقَهُ فَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرِعَاءَهَا، فَجَاءَنِي فَقَالَ: اتَّقِ اللهَ وَلَا تَظْلِمْنِي حَقِّي، قُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرِعَائِهَا، فَخُذْهَا فَقَالَ: اتَّقِ اللهَ وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ، خُذْ ذَلِكَ الْبَقَرَ وَرِعَاءَهَا، فَأَخَذَهُ فَذَهَبَ بِهِ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مَا بَقِيَ، فَفَرَجَ اللهُ مَا بَقِيَ،
توسل کی دوسری قسم ’’توسل بالذات‘‘ ہے۔ اس کی صورتیں درج ذیل ہیں:
دنیا میں موجودحیات یا فوت ہوجانے والی بزرگ ہستیوں کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے دعا کی جائے کہ فلاں نیک بندے کی برکت اور وسیلہ سے مجھ کو فلاں چیز عطا فرما اس طرح دعا کرنا درست ہے۔ جیسے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑا تو آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا فرمائی۔
توسل بالاحیاء متفق علیہ ہے اور توسل بالاموات اختلافی مسئلہ ہے۔ جس کی بنیاد سماع موتی پر ہے۔
دعا میں رسول اکرمﷺ کا وسیلہ دینا مستحسن ہے۔دیگر اموات کی بابت بھی علمائے دیوبندؒ جواز کا قول اختیار فرماتے ہیں۔ چناچہ المہند علی المفند میں ہے:”ہمارے مشایخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ لگانا ان کی حیات اور وفات کے بعد جائز ہے”۔
ما فی صحيح البخاري (2/ 27)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا»، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ
وفی المهند علی المفند:۲۹/۳۰
عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسل فی الدعوات بالانبیاءوالصالحین فی حیوتهم وبعد وفاتهم
ما فی مشكاة المصابيح (3/ 1444)
وَعَنْ أُمَيَّةَ بْنِ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بن أسيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ كَانَ يَسْتَفْتِحُ بِصَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ. رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السّنة»
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 397)
وقال السبكي: يحسن التوسل بالنبي إلى ربه ولم ينكره أحد من السلف ولا الخلف إلا ابن تيمية فابتدع ما لم يقله عالم قبله ۔
بدعقیدہ لوگوں میں یہ معمول ہے کہ اپنی حاجت اللہ تعالیٰ کے بجائے بزرگوں کے سامنے پیش کرنے اور ان سے منظور کرانے کو ضروری سمجھتے ہیں مثلا یا علی مدد ، یا غوث پاک مدد ، اسی طرح ناد علی کے نام سے قصیدہ پڑھنا وغیرہ ۔ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم لوگوں کی رسائی براہ راست خدا تعالیٰ کے دربار میں نہیں ہوسکتی، اس لئے ہمیں جو درخواست کرنی ہے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے سامنے پیش کریں اور جو کچھ مانگنا ہے ان سے مانگیں۔ اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ صرف مقبول بندوں کے واسطے سے ہی سنتے ہیں یا انہیں مرادیں پوری کرنے کی قدرت دے رکھی ہے،یہ فعل خالصتاً جہالت بلکہ بعض صورتوں میں شرک ہے اور یہ دراصل دو غلطیوں کا مجموعہ ہے۔
¯ایک یہ کہ دربار خداوندی کو دنیاوی درباروں پر قیاس کیا گیا ہے جس طرح دنیاوی درباروں میں براہ راست ہرشخص کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ درمیان میں واسطے ملا کر اپنی بات پہنچائی جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دربار تک رسائی کیلئے اسکے مقبول بندوں کا وسیلہ ضروری ہے،یہ غلط سوچ ہے۔ اس لئے کہ یہ ضرورت تو وہاں پیش آتی ہے جہاں بادشاہ تمام مسائل حل کرنے کی خود قدرت نہیں رکھتا ۔خود براہ راست ہر ایک کی حاجت سن نہیں سکتا ۔جب کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات میں سے ہر ایک کی آواز اس طرح سنتے ہیں جیسے باقی سب خاموش ہوں صرف ایک گفتگو کر رہا ہو۔ہر ایک کو اس کی چاہت کے بقدر دینے کے بعد بھی اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔
¯دوسری غلطی یہ ہے کہ جیسے دنیاوی بادشاہوں اور امرا ء نے اپنے ماتحتوں کو چند اختیارات تفویض کرکے عہدے اور منصب دے رکھے ہوتے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اختیارات میں ان عہدوں کا استعمال کرتے ہیں،اوربادشاہوں سے مشورے وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اور اپنے مقبول بندوں کو بھی اختیارات دے رکھے ہیں یہ غلطی پہلی غلطی سے بھی بد ترہے اس لئے کہ بادشاہ بہت سے مسائل کے حل میں وزیروں مشیروں کے محتاج ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، مشیروں،وزیروں اور نائب کی محتاج نہیں، اللہ تعالیٰ نے خدائی اختیارات کسی مخلوق کو عطا نہیں فرمائے۔
وفی تفسير الألوسي = روح المعاني فی تفسیر الایة (3/ 297)
«بقي هاهنا أمران» الأول أن التوسل بجاه غير النبي صلّى الله عليه وسلّم لا بأس به أيضا إن كان المتوسل بجاهه مما علم أن له جاها عند الله تعالى كالمقطوع بصلاحه وولايته، وأما من لا قطع في حقه بذلك فلا يتوسل بجاهه لما فيه من الحكم الضمني على الله تعالى بما لم يعلم تحققه منه عز شأنه، وفي ذلك جرأة عظيمة على الله تعالى، الثاني أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
۲۴ رجب ۱۴۴۱ھ
19 مارچ 2019